اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھارت کو کلبھوشن یادیو کیلئے وکیل فراہمی کا ایک اور موقع دیدیا

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھارت کو کلبھوشن یادیو کیلئے وکیل فراہمی کا ایک اور موقع دیدیا
اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھارتی جاسوس کلبھوشن کو وکیل فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے بھارت کو کلبھوشن کیلئے وکیل فراہمی کا ایک اور موقع دیدیا۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھارتی جاسوس کلبھوشن سے متعلق عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کے معاملے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ کلبھوشن بھارتی شہری ہے لیکن ہم اسے ایک انسان کے طور پر دیکھ رہے ہیں، بھارت اپنے شہری کو انسان کے طور پر بھی دیکھے۔

کلبھوشن کو حکومتی وکیل فراہم کرنے کے لیے وزارتِ قانون کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ کیا اس معاملے پر کوئی ایکٹ بھی پاس ہو گیا ہے؟

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ جی، دسمبر میں اس معاملے پر ایکٹ منظور ہوا ہے، ایکٹ کے مطابق غیر ملکی سے متعلق ایسی درخواست وزارتِ قانون دائر کر سکتی ہے، بھارت کو پاکستان کے پارلیمانی اقدامات پر اعتماد ہے، نہ پاکستانی عدالتوں پر۔

عدالت نے سوال کیا کہ کیا مناسب نہیں ہو گا کہ کلبھوشن بھارتی شہری ہے تو اسے دوبارہ اس بارے میں سوچنے کا موقع دیا جائے؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بھارت نے عالمی عدالت میں کیس کیا کلبھوشن کو قونصلر رسائی نہیں ملی، بھارت عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کے بعد خود کیس کی پیروی نہیں چاہتا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت اگر ایک اور موقع دینا چاہتی ہے تو یہ بھی مناسب بات ہے۔

عدالت نے کہا کہ عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے میں پاکستان کی عدالت پر اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے، عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے پر اگر کوئی ایک فریق عمل نہ کرے تو اس کے کیا اثرات ہوں گے؟

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے جواب دیا کہ بھارت انتظار کر رہا ہے کہ یہاں کورٹ میں عدالتی کارروائی ختم ہو تو وہ عالمی عدالتِ انصاف جائے، کہا گیا تھا کہ یہ مبارک پٹیل صاحب ہیں جبکہ ایسا نہیں تھا۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ ہمارے لیے کلبھوشن بھارت کا شہری نہیں صرف ایک انسان ہے، بطور انسان کلبھوشن کے تمام حقوق کا تحفظ ہو گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس عدالت نے جس طرح یہ کارروائی چلائی ہے شاید بھارت کی کوئی عدالت نہ چلا پاتی، کلبھوشن ایک تربیت یافتہ جاسوس ہے، جسے اس عدالت کے سب حکم نامے دیے گئے ہیں، کلبھوشن نہ خود، نہ ہی بھارت اسے وکیل فراہمی پر تیار ہے، بھارت کلبھوشن کو صرف ایک اثاثہ سمجھتا ہے، انسان نہیں۔

عدالت نے کہا کہ بھارت کلبھوشن کو انسان سمجھ کر دوبارہ فیصلہ کرے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھارت نے جب کلبھوشن کو بھیجا تو اس کو انسان کے کاغذوں سے نکال دیا، بھارت نے تو کہا تھا کہ یہ مبارک پٹیل ہے کلبھوشن نہیں، بھارت اس لیے اس عدالت میں نہیں آ رہا کہ اس کا منصوبہ ناکام ہو جائے گا۔

عدالت نے کہا کہ بھارت کو ایک اور موقع دے کر دیکھتے ہیں، شائد وہ کلبھوشن کو انسان سمجھ کر فیصلہ کرے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے کلبھوشن کو وکیل کی فراہمی کے لیے بھارت کو ایک اور موقع دے دیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بھارت کو سوچنے کے لیے ایک ماہ کا وقت دینا کافی ہو گا؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی، ہم عدالتی حکم سے بھارت کو فوری آگاہ کر دیں گے۔

عدالتِ عالیہ نے حکم دیا کہ بھارت ایک مہینے میں جواب دے، کلبھوشن کو انسان کی نظر سے دیکھے۔

عدالتِ عالیہ نے کیس کی مزید سماعت 13 اپریل تک ملتوی کر دی۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ بھارت کلبھوشن کا دفاع کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہا۔

انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کا آرڈر ہے کہ بھارت کو ایک بار پھر موقع دیں، کورٹ کا آرڈر ان تک پہنچا دیں گے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ کلبھوشن کے معاملے پر میں نے کورٹ میں بھی کہا کمیشن بنا دیں، کمیشن کی مشاورت کے بغیر کوئی ایکشن نہ لیا جائے۔