کلبھوشن یادیو کیس: عالمی عدالت انصاف میں کون جیتے گا؟ پاکستان یا بھارت

کلبھوشن یادیو کیس: عالمی عدالت انصاف میں کون جیتے گا؟ پاکستان یا بھارت
بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی پھانسی کے خلاف بھارتی اپیل کا فیصلہ آج بدھ 17 جولائی کو عالمی عدالت انصاف میں سنایا جائے گا۔ بھارت کے اس جاسوس اور دہشتگرد بیٹے کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔ اس سزائے موت کے فیصلے پر بھارت عالمی عدالت انصاف کے دروازے پر جا پہنچا، بھارتی درخواست پر عالمی عدالت انصاف نے اس کیس کی سماعت کی جس کا فیصلہ آج پاکستان کے میعاری وقت کے مطابق شام ساڑھے پانچ بجے سنایا جائے گا۔

اس فیصلے کو لے کر عوامی سطح پر کافی بحث ہو رہی ہے اور مختلف آراء سامنے آرہی ہیں۔ عالمی عدالت انصاف میں فتح کس ملک کی ہوگی؟ کیا کلبوشن کی سزائے موت برقرار رہے گی یا اسے رہا کر دیا جائے گا؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا درست جواب تو فیصلہ آنے کے بعد ہی ملے گا لیکن اس کیس کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے اور ممکنا فیصلہ کیا ہوگا؟ عالمی عدالت انصاف میں ہونے والی کارروائی سے اس کے کچھ اشارے ملتے ہیں۔

اگر ثبوتوں کا جائزہ لیا جائے تو سب سے پہلی چیز جو پاکستان کے حق میں جاتی ہے وہ کلبھوشن کا پاسپورٹ ہے۔ یہ بات تو سو فیصد درست ہے کے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے حسین مبارک پٹیل کے نام سے جو پاسپورٹ برآمد ہوا تھا وہ بلکل اصلی پاسپورٹ تھا۔ اس پاسپورٹ پر کلبھوشن اکثر بھارت سے ایران کا سفر کرتا رہا، اس نے 17 مرتبہ بھارتی ائیرپورٹس سے بغیر کسی رکاوٹ کے اس پاسپورٹ پر سفر کیا اور اس دوران کسی بھی سرکاری ایجنسی نے کلبھوشن کو حسین مبارک پٹیل کے پاسپورٹ پر سفر کرنے سے نہیں روکا۔ پاسپورٹ کے معائنے سے بھی یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ کلبھوشن کے پاس حسین مبارک پٹیل کے نام سے جو پاسپورٹ موجود تھا وہ اسے بھارتی حکومت نے ہی جاری کیا تھا۔

یہ پاسپورٹ کلبھوشن سے اس وقت برآمد ہوا تھا جب وہ بلوچستان میں پکڑا گیا تھا۔ آج تک بھارت نے بھی کلبھوشن یادیو کے دوسرے پاسپورٹ کے اصلی یا جعلی ہونے کی تصدیق نہیں کی اور نہ ہی کسی سطح پر اس پاسپورٹ کو لے کر بات کی ہے۔ بھارت صرف ایک ہی بات کا رونا روتا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ کلبھوشن کے کیس میں کونسلر رسائی نہیں دی گئی۔

بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستان نے کلبھوشن کے کیس میں کونسلر رسائی نہیں دی جس سے ٹرائل مشکوک اور یک طرف ہو جاتا ہے۔ اس لیے کلبھوشن کی سزائے موت کو ختم کیا جائے کیونکہ ویانا کنونشن کا آرٹیکل 36 ہر زیر حراست غیر ملکی کو یہ حق دیتا ہے کہ اسے کونسلر رسائی دی جائے۔ اگر دیکھا جائے تو بھارت کا یہ مطالبہ بھی بے بنیاد ہے کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 2008 میں ہونے والے ایک معاہدے میں یہ شرط طے پائی تھی کہ جاسوسی اور ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے غیر ملکی قیدی کے لیے کونسلر رسائی کا حق ختم ہو جائے گا۔ اس معاہدے کو لے کر بھارت نے مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان نے کلبھوشن کو ایران سے اغواء کیا اور تشدد کر کے اس سے یہ بیان دلوایا کہ وہ بھارتی بحریہ کا افسر اور خفیہ ایجنسی را کا ایجنٹ ہے، اس لیے کلبھوشن کو ملنے والی سزا درست اور قابل قبول نہیں۔

کلبھوشن کو مقدمے کو لے کر بھارت چاہتا ہے اسے بے گناہ قرار دے کر بھارت کے حوالے کیا جائے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو اسے بھارت کی شکست قرار دیا جا سکتا ہے۔

بھارتی قانونی ٹیم کے ان دلائل پر پاکستانی وکیل بیرسٹر خاور قریشی نے بھی تگڑے دلائل پیش کیے تھے۔ انہوں نے اپنے دلائل میں عالمی عدالت انصاف کو یہ بتایا تھا کہ کلبھوشن کا حسین مبارک پٹیل کے نام سے جاری ہونے والے پاسپورٹ اصلی ہے جسے بھارت نے جاری کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے عالمی عدالت انصاف کی توجہ 2008 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی طرف بھی دلوائی، جس میں یہ واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ جاسوسی کے کیس میں قیدی کو کونسلر رسائی کا حق میرٹ کی بنیاد پر دیا جائے گا، کیونکہ بھارت نے پاسپورٹ کے نقلی ہونے کا ثبوت پیش نہیں کیا اور اپنے کیس میں تمام توجہ کونسلر رسائی کے معاملے پر دی۔ اس لیے بھارت کا کیس کافی کمزور ہے اور فیصلہ تقریباَ پاکستان کے حق میں ہوتا نظر آرہا ہے۔

بظاہر تو پاکستان کا کیس مضبوط نظر آتا ہے لیکن عالمی عدالت انصاف کے بھارتی جج کی جانبداری اس کیس کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس لیے عوامی سطح پر یہ تاثر عام ہے کہ پاکستان عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن کا کیس ہار جائے گا، اگر پاکستان نے کلبھوشن کو کونسلر رسائی دی ہوتی تو پاکستان کا کیس زیاد مضبوط ہوتا۔

موجود صورتحال میں ممکن ہے کہ عالمی عدالت انصاف پاکستان کو کلبھوشن کی سزائے موت پر عملدرآمد سے روک دے یا پھر اسے رہا کر کے بھارت کے حوالے کرنے کا حکم نامہ سنائے، اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ پاکستان کی ہار ہوگی۔

کیا پاکستان عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے خلاف جا سکتا ہے؟

جی ۔۔! ایسا ممکن ہے، پاکستان عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے خلاف جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے پاکستان کو عالمی سطح پر شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ماضی میں امریکہ بھی عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کو ماننے سے انکار کر چکا ہے۔