کلبھوشن یادیو، نواز شریف اور 17 جولائی

کلبھوشن یادیو، نواز شریف اور 17 جولائی
لاہور: عالمی عدالت انصاف نے آج بدھ 17 جولائی کو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے مقدمے کا محفوظ فیصلہ سنا دیا ہے۔

عالمی عدالت انصاف نے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث بھارتی جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادیو کی بریت کی بھارتی درخواست مسترد کردی ہے، تاہم کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی دینے کی درخواست منظور کرتے ہوئے، پاکستان کو فیصلے پر نظرثانی کرنے اور کلبھوشن کو قونصلر رسائی دینے کی ہدایت کی ہے۔

عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے کے بعد کلبھوشن یادیو کی سزائے موت معطل ہوگئی ہے، جس سے کلبھوشن کو عارضی طور پر ریلیف ملا ہے۔ ایسا ہی ایک ریلیف آج سے دس برس قبل 17 جولائی 2009 میں سابق پاکستانی وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کو بھی ملا تھا۔ جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے انہیں طیار سازش کیس میں بری کر دیا تھا۔ عدالت نے اپنی رولنگ میں کہا تھا کہ اس مقدمے میں ایسے کوئی شواہد یا ثبوت پیش نہیں کیے گئے، جن سے یہ ظاہر ہو کہ نواز شریف طیارے کی ہائی جیکنگ میں ملوث تھے۔

نواز شریف پر الزام تھا کہ انہوں نے 1999ء میں اس دور کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کا طیارہ اغواء کیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ نے نواز شریف کو فوجی سربراہ کا جہاز اغواء کرنے کے الزام میں قصور وار قرار دیتے ہوئے دو بار عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ نواز شریف آئندہ کسی بھی قسم کے سرکاری یا عوامی عہدے کے اہل نہیں ہوں گے۔ یہ سزا سنائے جانے کے کچھ ہی روز بعد نواز شریف اپنے اہل خانہ کے ہمراہ جنرل پرویز مشرف سے ایک ڈیل کے ذریعے سعودی عرب منتقل ہو گئے تھے۔ 2007ء میں نواز شریف جلاوطنی ختم کر کے ایک مرتبہ پھر پاکستان لوٹے تاہم وہ اس عدالتی فیصلے کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ نہ لے پائے تھے۔

17 جولائی 2009 کا فیصلہ آنے کے بعد نوازشریف کی سزا ختم ہوگئی اور انہیں سرکاری اور عوامی عہدوں کے لیے بھی اہل قرار دے دیا گیا تھا۔ اس کے بعد 2013 کے انتخابات میں نواز شریف ملک کے وزیراعظم بنے لیکن ایک بار پھر تاحیات نااہل ہو کر کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے کلبھوشن یادیو کو ملنے والا یہ ریلیف کب تک بحال رہے گا۔