کلبھوشن یادیو کا معاملہ کیا ہے؟

کلبھوشن یادیو کا معاملہ کیا ہے؟
پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ کلبھوشن یادو پاکستان میں جاسوسی اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے اور انہیں مارچ 2016 کو بلوچستان کے علاقے ماشخیل سے گرفتار کیا گیا تھا۔

پاکستان حکومت کا کہنا ہے کہ حُسین مبارک پٹیل کے نام سے بھارتی خفیہ جاسوس کلبھوشن سُدھیر یادھو کے پاسپورٹ کی کاپی کے مطابق وہ 30 اگست 1968 کو بھارتی ریاست مہاراشٹرا کے شہر سانگلی میں پیدا ہوا۔ حُسین مبارک پٹیل کا نام پاکستان میں انٹیلی جنس جمع کرنے کے لیے دیا گیا تھا۔


ریکارڈ کے مطابق، ممبئی کے مضافاتی علاقے پووائی کے رہائشی کلبھوشن یادھو ان کے اپنے بیان کے مطابق بھارتی نیوی میں حاضر سروس افسر ہیں جن کی ریٹائرمنٹ سال 2022 میں ہونا ہے۔


پاکستان حکام کے مطابق کلبھوشن کے پاس حسین مبارک کے نام سے پاسپورٹ موجود تھا جس کے اصل ہونے کی برطانیہ کا فرانزک ادارہ تصدیق کر چکا ہے۔ کلبھوشن نے حسین مبارک پٹیل کے نام کے پاسپورٹ پر 17 بار دلی سے بیرون ملک فضائی سفر کیے۔

کلبھوشن یادیو نے مزید کہا کہ اس نے 1987 میں نیشنل ڈیفنس اکیڈمی اور 1991 میں بھارتی نیوی میں شمولیت اختیار کی، جہاں اس نے دسمبر 2001 تک فرائض انجام دیئے۔

بھارتی جاسوس نے کہا کہ پارلیمنٹ حملے کے بعد اس نے بھارت میں انفارمیشن اینڈ انٹیلی جنس جمع کرنے کے لیے اپنی خدمات دینے کا آغاز کیا۔

کلبھوشن کا اپنے اعترافی بیان میں کہنا تھا کہ ’میں اب بھی بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر ہوں اور بطور کمیشنڈ افسر میری ریٹائرمنٹ 2022 میں ہوگی۔‘

کلبھوشن کا کہنا تھا کہ اس نے 2003 میں انٹیلی جنس آپریشنز کا آغاز کیا اور چابہار، ایران میں کاروبار کا آغاز کیا جہاں اس کی شناخت خفیہ تھی اور اس نے 2003 اور 2004 میں کراچی کے دورے کیے۔

2013 کے آخر میں اس نے بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے لیے ذمہ داریاں پوری کرنا شروع کی اور کراچی اور بلوچستان میں کئی تخریبی کارروائیوں میں کردار ادا کیا۔

کلبھوشن نے کہا کہ پاکستان میں اس کے داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا اور قتل سمیت مختلف گھناؤنی کارروائیوں میں ان سے تعاون کرنا تھا۔

کلبھوشن یادیو کو 3 مارچ 2016 کو پاکستان کے حساس اداروں نے بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے گرفتار کیا تھا۔

تاہم انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق بھارت نے الزام لگایا کہ کلبھوشن یادیو کو پاکستان نے ایران سے اغوا کیا۔

بھارت کا موقف تھا کہ ان پر چلایا جانے والا مقدمہ فیئر ٹرائل نہیں تھا اور سزا سنائے جانے سے قبل ان تک بھارت کو سفارتی رسائی نہیں دی گئی۔ اس لیے انسانی حقوق کے تحت کلبھوشن کی رہائی کا حکم جاری کیا جائے۔

بھارت نے پاکستان میں یہ مقدمہ فوجی عدالت میں چلائے جانے پر بھی اعتراض کیا تاہم بھارت نے عالمی عدالت میں ان کی ریٹائرمنٹ کے ثبوت پیش نہیں کیے تھے۔

دوسری جانب اسی سماعت کے دوران پاکستان نے جوابی دلائل میں موقف اختیار کیا تھا کہ بھارت ویانا کنونشن کے معاہدوں کے تحت سفارتی رسائی کی بات کرتا ہے تو کسی دوسرے ملک میں جاسوس بھیجنا بھی اس کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔

پاکستانی وکیل خاور قریشی کا کہنا تھا کہ بھارت تو کلبھوشن یادو کی شہریت ہی ثابت نہیں کر سکا کیونکہ ان کے پاس پاسپورٹ حسین مبارک پٹیل کے نام سے ہے جبکہ سروس کارڈ بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر کا ہے۔