پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان سے اچھے ماحول میں ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ شاہ محمود کے بیان سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس پر کوئی جواب نہیں دوں گا، یہ ہلکی بات ہے اور ہم لوگوں کو ہلکی بات کرنا زیب نہیں دیتا۔
وزیراعظم سے اپنے ساتھیوں کی ملاقات سے متعلق انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سے میرے دوستوں کی ملاقات ہوئی تھی جو اچھی رہی ہے، ہمارے لوگوں نے بھی کھل کر باتیں کیں، جو تحفظات تھے ان سے آگاہ کیا، وزیراعظم نے نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ خود ان معاملات کو دیکھیں گے اور کہا ہےکہ انصاف ہونا چاہیے۔
لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر خان ترین نے کہا کہ ہم عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں عدالت شفاف طریقے سے کارروائی کرے۔ وزیر اعظم نے علی ظفر کو کیس کی ذمہ داری سونپی ہے، ان سے اچھے ماحول میں ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں کوئی منی لانڈرنگ نہیں ہوئی، یہ کریمنل کیس نہیں ہے، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کا اس میں کوئی کردار نہیں، یہ کاروباری معاملات کا کیس ہے، اس میں پبلک فنڈ یا خفیہ فنڈ کا کوئی معاملہ نہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے کہا کہ ایک سال سے میرے خلاف تفتیش ہورہی ہے، 78 پیشیاں بھگت چکے ہیں جبکہ ہم کیس ختم کرنے کی بات نہیں کر رہے اور نہ بجٹ کی منظوری میں رکاوٹ پیدا کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
جہانگیر ترین کا کہنا تھاکہ میرے کیس کی کوئی حقیقت نہیں، سب کو صاف معلوم ہو رہا ہے کہ یہ جو کیس ہو رہے ہیں اس کی بنیاد کچھ اور ہے، ہم تفتیش سے نہیں بھاگتے، ایک سال سے تفتیش ہورہی ہے، ہزاروں نہیں لاکھوں دستاویزات دیے ہیں، میری کمپنی کے لوگوں نے 100 پیشیاں بھگتی ہیں، اس کیس کا کوئی حل نکلے گا جب کہ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ کیس ختم کردو، ہم چاہتے ہیں کہ پوری طرح تفتیش ہو تاکہ عوام بھی دیکھیں ہم ٹھیک سرخرو ہوئے ہیں۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کی بات کا جواب نہیں دوں گا، ان کو ایسا کہنا زیب نہیں دیتا ایک یہ ہلکی بات ہے اور ہم لوگوں کو ہلکی بات نہیں کرنی چاہئیے۔ '(ن) لیگ یا پیپلز پارٹی سے رابطوں کی تردید کرتے ہوئے انہوں نے کہا میرا کسی بھی جماعت سے کوئی رابطہ نہیں ہوا'۔
قبل ازیں سیشن کورٹ میں جہانگیر ترین اور علی ترین کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ جہانگیر ترین کے شریک ملزمان کے بیان ریکارڈ ہونا باقی ہیں، بینک سے بھی ابھی کچھ ریکارڈ آنا باقی ہے، جیسے ہی ریکارڈ مکمل ہوگا تفتیش مکمل کر لیں گے۔
جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ ابوبکر خدابخش کو بھی تحقیقاتی ٹیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے، وہ شاید ابھی کیس سمجھ رہے ہیں لیکن انہوں نے جہانگیر ترین کو طلب نہیں کیا۔ ابوبکر خدابخش جیسے ہی جہانگیر ترین اور علی ترین کو طلب کریں یہ دونوں پیش ہوں گے، ہم کیس کو لٹکانا نہیں چاہتے جلدی اپنا کیس مکمل کرنا چاہتے ہیں۔
جج حامد حسین نے ریمارکس دیے کہ ساری ذمہ داری ایف آئی اے کے تفتیشی افسر پر ہے۔ جج نے استفسار کیا کہ عدالت نے جہانگیر ترین کے کیس میں انکوائری رپورٹ منگوائی تھی وہ فائل کدھر ہے۔ ایف آئی اے کی جانب سے جہانگیر ترین کیس کی انکوائری رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔ عدالت نے ایف آئی اے پر اظہار ناراضی کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سماعت پر ایف آئی اے ہر صورت انکوائری رپورٹ عدالت میں پیش کرے، اگر آئندہ سماعت پر بھی انکوائری رپورٹ پیش نہ کی گئی تو ایف آئی اے کے خلاف کارروائی ہوگی۔ عدالت نے ہدایت کی کہ ایف آئی اے جلد از جلد تفتیش مکمل کرے۔ سیشن کورٹ نے جہانگیر ترین اور علی ترین کی عبوری ضمانت میں 19 مئی تک توسیع کر دی۔
دوسری جانب بینکنگ جرائم کورٹ میں جہانگیر ترین اور علی ترین کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت میں ایف آئی اے نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا، تحقیقات میں اب ابوبکر خدا بخش شامل ہوئے ہیں، جہانگیر ترین ابوبکر خدا بخش کے پاس پیش ہو کر اپنی گزارشات بیان کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کا مقدمہ بڑے عجیب نوعیت کا ہے، ایف آئی اے کے کیس میں بے پناہ نقص ہیں، ایف آئی اے نے اس عدالت کے دائرہ اختیار پر اعتراض اٹھایا تھا، میرے خیال سے یہ کسی بھی عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، یہ کیس تو قابل اخراج ہے اس کیس میں کچھ نہیں ہے۔
بعد ازاں عدالت نے جہانگیر ترین اور علی ترین کی ضمانت میں 19 مئی تک توسیع کر دی۔ جج نے وکلا کو ہدایت کی کہ 19 مئی کو شاید تاریخ نہ ملے، فریقین کے وکلا تیاری کے ساتھ پیش ہوں۔