31 مارچ 2021کو سپریم کورٹ کے اس مشہور فیصلے کو آئے2483 دن، یعنی چھ سال اور نوماہ بیت گئے جس میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے حقوق سے متعلق آٹھ احکامات جاری کئے تھے۔ فیصلے کی تعمیل میں سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے اس عرصے کے دوران 23 سماعتیں کیں اور درجنوں احکامات جاری کئے۔ لہذا، تعمیل کی موجودہ رفتار کے پیش ِنظر، اس تاریخی فیصلہ کے مکمل نفاذ کے لئے مزید 21 سال درکار ہونگے۔
JUSTICE YET AFAR کے نام سے پیٹر جیکب کی یہ تحقیق ادارہ برائے سماجی انصاف نے شائع کی ہے۔ یہ تحقیق اس موضوع پر تیسری اشاعت اور قانونی اور عملی اعتبار سے ایک منفرد تحقیق ہے۔ اس سلسے میں پہلی تحقیق 2016 میں فیصلے کے27 ماہ بعد شائع کی گئی جبکہ دوسری فیصلے کے پانچ سال بعد 19 جون 2019 کو شائع کی گئی۔
تحقیق میں فیصلے کے نفاذ میں سرکاری محکموں اور وزارتوں کی کاوشوں کا ا ور ناکامیوں کے مختلف پہلوؤں کاجائزہ لیا گیاہے جس میں اقلیتوں کے حقوق کے پرعدم نفاذ کے عوامل کی نشاندہی کی گئی ہے اور چند موضوعات پر ابواب تحقیق میں شامل کیے گئے ہیں جن میں مندرجہ بالا احکامات کے ناطے اقلیتوں کے لئے قومی کمیشن، املاک کے تحفظ، ملازمت کا کوٹہ، نصاب، قیامِ امن اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے قائم کردہ ون مین کمیشن کے اقدامات کا جائزہ شامل ہے۔ تحقیقی رپورٹ کا انتساب نامور دانشور، انسانی حقوق کے علمبردار آئی اے رحمن کے نام ہے جو اس سال12 اپریل کو رحلت فرما گئے تھے۔
لاہور میں 30اپریل 2021 کو اس تحقیق کی تقریبِ رونمائی ہوئی جس میں سابق جج لاہور ہائی کورٹ جسٹس (ر) ناصرہ اقبال، اقوام متحدہ کی سابق خصوصی مبصر اورچیئرپرسن ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان، محترمہ حنا جیلانی،تاریخ دان ڈاکٹر یعقوب خان بنگش، انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل سروپ اعجاز اورایڈووکیٹ ثاقب جیلانی نے اظہارِخیال کیا۔
محترمہ حنا جیلانی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے نا مکمل نفاذ سے وابستہ عوامل پراس تحقیق کو ایک قابل قدر اضافہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کے ذریعے سپریم کورٹ نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے ایک بہت ہی جامع فریم ورک کی تجویز پیش کی تھی جس کی تعمیل کی صورت میں پاکستان میں اقلیتوں اور عوام کو مذہبی آزادی اورتمام شہریوں کو معاشرتی ہم آہنگی میسر آ سکتی تھی۔ انہوں نے مزید کہاکہ اس تحقیق سے واضح ہوگیا ہے کے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سات سال گزر جانے کے بعد بھی فیصلے پر 24 فیصد سے زیادہ عملدرآمد نہیں کیا جو بات باعث تشویش ہے۔
ڈاکٹر یعقوب خان بنگش نے مطالعے میں تجزیہ اور رکاوٹوں کے پیچھے کارفرما عوامل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور نگرانی کے لئے ایک قانونی اور با اختیار کمیشن کی عدم موجودگی، اقلیتوں کے عائلی قوانین سے متعلق زیرالتواء قانون سازی، ٹاسک فورس کی تشکیل میں تاخیر اور نظام تعلیم میں جامع اصلاحات جیسے بنیادی امور پر توجہ دلانے کی ضرورت ہے تا کہ زیربحث تاریخی فیصلے میں تجویز کردہ حقوق کے تحفظ کے نظام کو موثر انداز میں اپنا یا جاسکے۔
ایڈووکیٹ ثاقب جیلانی نے 19 جون کے فیصلے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے قوم کو اقلیتوں کے معاملات پر توجہ دینے میں مدد ملی ہے، اس کے نفاذ سے حکمرانی میں پائے جانے والے خلا کو بے نقاب کردیا گیا ہے۔ اب یہ فیصلہ سازاداروں اورعوام الناس پر منحصر ہے کہ وہ نظام میں اصلاحات میں درپیش مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے اس موقع کو بروئے کار لائیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سپریم کورٹ کے معزز بینچ کی رہنمائی میں، ون مین کمیشن نے مشکل حالات میں قوم کی خدمت کے لئے پوری کوشش کی ہے۔ انہوں نے پاکستان میں زندگی کے تمام شعبوں میں انصاف پروری کے لئے جدوجہد کرنے والے لوگوں کی حمایت کا اعادہ بھی کیا۔
سابق جج لاہور ہائیکورٹ، جسٹس ناصرہ اقبال نے نشاندہی کی کہ برابری کی شہریت کے تصور کوہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہیے خاص طور پر ایسی مساوات اور حقوق جو عقیدے سے بالاترہوتی ہے اور 19 جون 2014 کے فیصلے کے ناطے معروف رہنما اصول آئین کے ذریعے اس تصور کی توثیق کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان کو اپنے تعلیمی نظام کو جدید بنانا ہوگا تاکہ ان سب کے لئے ایک جامع اور بلا تفریق ِمذہب نصابِ تعلیم تشکیل دیا جا سکے۔
انسانی حقوق کے کارکن،سروپ اعجازنے تقریبِ رونمائی کی نظامت کرتے ہوئے کہا کہ اب جب کہ ریاستی اداروں کی جانب سے فیصلے پرعمل درآمد نہ ہونے کت سلسلہ میں درپیش مسائل کی نشان دہی ہو چکی ہے امید کی جاتی ہے کہ 19 جون کے تاریخی فیصلے کی روشنی میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے صوبائی اور وفاقی حکومت ہر طرح سے موثر عمل درآمد پر سنجید گی سے توجہ دی جائے گی۔
پیٹر جیکب، مصنف، ڈائریکٹرادارہ برائے سماجی انصاف، نے کہا کہ ''جسٹس یٹ آفار''ایک کوشش ہے جس کے تحت کہ نظام کی کوتاہیوں کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ تحقیق پاکستان کو ریاست کی حیثیت سے بااختیار بنانے میں درپیش مشکلات کا ایک احاطہ بھی کرتی ہے۔ قانون کی بالادستی، انسانی حقوق کے احترام، جمہوری اور شراکت دارانہ حکمرانی کے لئے جاری کوششیں ملک میں انصاف اور امن کے لئے عوام کی خواہش کی آیئنہ دار ہیں۔اسی لیے اس فیصلے پرعمل درآمد کا خواب بنیادی طورایک متحرک اور امن پسند معاشرے کی تشکیل اورتکمیل کا باعث ہو گا۔