دماغی امراض اور ہماری ذمہ داریاں

دماغی امراض اور ہماری ذمہ داریاں
تقریباً دو سال کی بات ہے، ہمارا Behavioural Science کا لیکچر ہو رہا تھا، پروفیسر صاحب (جو ایک مشہور ماہر نفسیات ہیں) نے خلاف توقع پانچ منٹ پہلے ہی لیکچر ختم کر دیا۔ انہوں نے ایک فقرا بولا، جو تب ہم نے اتنی توجہ سے نہیں سنا تھا، فقرا یہ تھا "اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں Mental Illness کو سیریس لینا ہو گا، ڈنگ ٹپاؤ سے اب کام نہیں چلے گا"

10 اکتوبر بروز جمعرات کو پوری دنیا میں World Mental Health Day منایا گیا۔ اس دن کا مقصد لوگوں کو دماغی صحت اور امراض کے بارے میں آگاہی دینا ہے۔

یہ دماغی بیماریاں کیوں ہوتی ہیں؟

تو اس کے پیچھے کئی عوامل ہوتے ہیں۔ مثلاً جو لوگ شراب نوشی کرتے ہیں، ان میں ان بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ زیادہ سڑیس لینے سے بھی یہ بیماریاں ہو سکتی ہے۔ جن فیملیز میں ان بیماریوں کی ہسڑی ہوتی ہے، ان کے رشتہ داروں میں ان بیماریوں کے ہونے کے چانسز کافی زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے ہی، وہ لوگ جن کے ساتھ بچپن میں کوئی حادثہ درپیش آتا ہے۔ یہ بیماریاں ایسے لوگوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ Child Abuse کا بھی ان بیماریوں میں کافی عمل دخل ہوتا ہے۔ ہمارے دماغ میں کچھ کیمیکلز (مادے) پائے جاتے ہیں، جنہیں NeuroTransmitter کہتے ہیں۔ ان کی کمی یا زیادتی دونوں ہی دماغی امراض ہونے کی بڑی اہم وجہ ہیں۔

دماغی بیماریوں کی کوئی واضح کلاسفیکشن تو نہیں، لیکن انہیں عام طور پر ان گروپس میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

Mood Disorders

Anxiety Disorders

Personality Disorders

Psychotic Disorders

Eating Disorders

Stress Disorders

بدقسمتی سے وطن عزیز میں دماغی امراض میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم میں زیادہ و بیشتر ان امراض کو سریس ہی نہیں لیتے، جس کی وجہ سے زیادہ تر لوگ علاج سے محروم رہتے ہیں۔ اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر خاندان کے کسی فرد میں کوئی دماغی مرض نکل آئے، تو گھر والے شرمندگی سے بچنے کے لئے نا تو کسی کو بتاتے ہیں اور نا ہی ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مریض کی حالت مزید بگڑتی ہے۔ ہمارے ہاں غلط فہمی پنپنے میں زرا سی بھی دیر نہیں لگتی۔ جیسے ہی ہمیں پتا چلتا ہے کہ فلاں بندہ نفسیاتی مرض میں مبتلا ہے، ہم اسے فوراً پاگل ڈکلیئر کر دیتے ہیں، وہ بندا اگر پاگل نا بھی ہو لیکن ہمارے رویے سے ضرور پاگل ہو جاتا ہے۔

ان بیماریوں میں مبتلا مریض اول تو ڈاکٹرز سے رجوع کرتے ہی نہیں، اگر کرتے ہیں تو لیٹ کرتے ہیں، اور اگر کر بھی لیں تو ڈاکٹر کی بات ماننا گوارا نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے یہ بیماریاں جلدی ٹھیک نہیں ہوتیں۔

اکثر لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ امراض ناقابلِ علاج ہوتے ہیں۔ جو کہ سراسر غلط ہے، یہ امراض قابل علاج ہیں، ہاں ان کو ٹھیک کرنے میں باقی بیماریوں کی نسبت زیادہ وقت لگتا ہے۔ ہمارے ہاں ان بیماریوں کا Cure Rate بہت کم ہیں۔ اس کے کم ہونے کی بڑی وجہ ڈاکٹر کی نصیحت پہ صحیح عمل نہ کرنا اور فیملی سپورٹ نہ ہونا ہیں۔ ان امراض میں مبتلا افراد کو ان کی فیملی کی زیادہ سپورٹ درکار ہوتی ہے، لیکن ہمارے ہاں یہ کام بھی الٹا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے، کہ ایسے افراد کے ساتھ ان کی فیملیز کا رویہ بدل جاتا ہے۔ انہیں وہ توجہ اور سپورٹ نہیں دی جاتی جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے اور یوں بجائے ٹھیک ہونے کے ان کی صحت مزید بگڑتی ہے۔

ہمارے ہاں ایک اور سخت غلط فہمی رائج ہے، وہ یہ ہے کہ یہ دماغی مرض ہوتے نہیں، یہ جنوں/چڑیلوں کی واردات ہے۔ بجائے ڈاکٹر سے علاج کروانے کے، ہم مریض کو بابوں، فقیروں کے پاس لے جاتے ہیں، جو ٹائم ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں۔

دماغی/نفسیاتی امراض کے علاج کے مختلف طریقے ہیں۔

اس میں دوائیوں سے علاج Psychotherapy اور Behavioural Therapy شامل ہیں۔ کچھ ماہر نفسیات دوائیوں سے زیادہ Behavioural Therapy پر زور دیتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں دماغی امراض کے مریضوں کے لیے سوسائٹیز اور Supports Group بنائے گئے ہیں، جو ان مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، ان گروپس کی بدولت بیماری کے جلد ٹھیک ہونے کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔

دماغی امراض کے مریض پاگل نہیں ہیں، ہمیں یہ بات سمجھنی ہو گی، یہ لوگ ہماری محبت اور توجہ کے مستحق ہیں۔ یہ لوگ مکمل طور ہر ہماری سپورٹ پر منحصر کرتے ہیں۔ اگر آپ کے خاندان میں کوئی اس مرض کا شکار ہے، تو چھپایے اور شرمایے مت، اس کا ہاتھ تھامیے، اسکا ساتھ دیجیے، اس کو مکمل توجہ دیں جس کا وہ سب سے زیادہ مستحق ہے اور جلد از جلد ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

پاکستان میں ان بیماریوں کی آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی ہم بابوں اور فقیروں پر آس لگائے بیٹھے ہیں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ عوام میں ان بیماریوں کی آگاہی کے لئے نیشنل لیول پر آگاہی مہم شروع کرے۔ عوام الناس کو ان بیماریوں کے متعلق مکمّل معلومات فراہم کی جانی چاہیے۔سرکاری ہسپتالوں میں خصوصی Psychiatric Clinics اور Wards ہونے چاہیے۔ جہاں ان بیماریوں کی مکمّل تشخیص اور علاج کی سہولت مہیا ہو۔ Supports Groups کے قیام کے لئے سول سوسائٹی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے کا یہی تقاضا ہے کہ ان امراض میں مبتلا لوگوں کو اکیلا مت چھوڑا جائے۔ ان کی مکمل مدد کی جائے تاکہ وہ ایک مہذب معاشرے کے کار آمد شہری بن سکیں اور ایک نارمل زندگی گزار سکیں۔

مضمون نگار ڈاکٹر ہیں اور سر گنگارام ہسپتال لاہور میں آرتھوپیڈک سرجری کی ٹریننگ کر رہے ہیں۔