Get Alerts

'تحریکِ لبیک معاملے پہر اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی لوگ ایک صفحے پر نہیں'

'تحریکِ لبیک معاملے پہر اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی لوگ ایک صفحے پر نہیں'
سینیئر صحافی شاہد میتلا نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اس معاہدے سے خوش نہیں ہیں جو تحریکِ لبیک پاکستان کے ساتھ کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کے علاوہ بھی کچھ لوگ ہیں جو اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ عمران خان چاہتے تھے کہ تحریکِ لبیک پاکستان کو سبق سکھایا جائے اور سعد رضوی کے حوالے سے بھی اچھے خاصے تحفظات تھے کہ انہیں رہا نہیں ہونا چاہیے اور ٹی ایل پی کو قومی دھارے میں لانے کی مشق بھی ابھی نہیں ہونی چاہیے۔

نیا دور کے پروگرام 'خبر سے آگے' میں بدھ کی شام بات کرتے ہوئے شاہد میتلا کا کہنا تھا کہ اوریا مقبول جان حکومت کی جانب سے ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے اور ان کو ٹی ایل پی نے کہا تھا کہ اگر حکومت ان کی جماعت کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ واپس لے لے اور سعد رضوی کو رہا کر دیا جائے تو ہم اپنی مارچ کی کال واپس لے لیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

"لگتا ایسا ہے کہ حکومت بھی چاہتی تھی کہ مارچ ہو جائے، حالات اچھے ہوں یا برے۔ عمران خان ےتو چاہتے تھے کہ حالات غلط طرف جائیں"۔

شاہد میتلا کا کہنا تھا کہ فواد چودھری کی جانب سے ٹی ایل پی کے بیانات میں یہ واضح ہے کہ وہ وزیر اعظم عمران ہی کی دی ہوئی لائن پر بات کرتے ہیں۔ فواد چودھری، علی زیدی، فیصل واؤڈا اور ذلفی بخاری وہی بات کرتے ہیں جو عمران خان ان کو کرنے کو کہتے ہیں۔ لہٰذا اگر فواد چودھری ابھی تک جارحانہ بیانات دے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ عمران خان اس معاہدے سے خوش نہیں۔

"اب تحریکِ لبیک کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ کل تک سعد رضوی کو رہا کر دیا جانا چاہیے اور اگر انہیں رہا نہ کیا گیا تو مفتی منیب کے مطابق اس سے بھی زیادہ طاقت کے ساتھ آگے آیا جائے گا۔ تحریک لبیک والے تو باقاعدہ دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر معاہدہ پورا نہ کیا گیا تو ہم اس سے بھی جارحانہ انداز سے آئیں گے۔"

سینیئر صحافی کا مزید کہنا تھا کہ آرمی چیف نے ہی یہ معاہدہ کروایا ہے اور انہی کی ایما پر علما نے تحریک لبیک سے مذاکرات کیے۔ لیکن یہاں ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ آئی ایس آئی سربراہ نے میڈیا کو جو بریفنگ دی تھی اس میں تو کہا گیا تھا کہ ہم ریاست کی رٹ قائم کریں گے اور خونریزی بھی ہو سکتی ہے۔ "اب ایک طرف تو یہ بات ہو رہی ہے کہ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا اور دوسری جانب آرمی چیف آ کر معاہدہ کروا دیتے ہیں۔ اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ میں بھی اس معاملے پر لوگ مختلف پیجز پر ہیں"۔

مکمل ویڈیو دیکھیے: