3 نومبر کو جمعرات کے دن پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر وزیرآباد میں ایک قاتلانہ حملہ ہوا ہے جس میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق عمران خان ٹانگ میں گولی لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے ہیں۔ حملے کے وقت عمران خان اپنے لانگ مارچ کی مہم کے دوران اپنے کنٹینر پر موجود تھے۔ عمران خان کے لانگ مارچ کے شروع ہونے کے ساتھ ہی چہ مگوئیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا کہ اس لانگ مارچ کے دوران حالات خراب ہو سکتے ہیں جو خدانخواستہ لاشیں گرنے کے خطرناک حالات کی طرف جا سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما فیصل واؤڈا نے 26 اکتوبر کو اپنی پریس کانفرنس میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اس لانگ مارچ میں لاشیں گر سکتی ہیں۔ عمران خان پر حملے سے یہ شک تو یقین میں بدل گیا ہے کہ حالات خراب ہونے والی خبروں میں کافی حد تک صداقت تھی۔ پاکستان اور اس کی عوام کے لئے یہ خبر خوش آئند ہے کہ عمران خان کسی بڑے حادثے سے محفوظ رہے ہیں۔ پاکستان اور اس کے عوام ایک بڑے قومی نقصان سے محفوظ رہے۔ جہاں پر اس بات پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے وہیں پہ یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام جو اب خونیں تصادم کی طرف جا رہا ہے اس کا حل کیا ہے؟
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنے خلاف کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد سے اب تک موجودہ حکومت اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے ایک مطالبہ کر رہے ہیں کہ پاکستان میں فوری الیکشن کا علان کیا جائے۔ عمران خان کے الیکشن کے مطالبے میں اپنے سیاسی مفادات ہو سکتے ہیں مگر اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ پاکستان میں اس وقت الیکشن ناگزیر ہو چکے ہیں۔ پی ڈی ایم کی پارٹیوں پر مشتمل حکومت پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی استحکام لانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ سیاسی عدم استحکام دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ مشہور صحافی ارشد شریف کے قتل اور اب عمران خان پر حملے کے بعد صورتحال مزید سنگین ہو گئی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی 27 اکتوبر کو کی گئی غیر معمولی پریس کانفرنس میں بھی یہی تاثر پایا گیا ہے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ایک خطرناک صورتحال اختیار کر چکا ہے جس کو روکنے میں موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں بے بس اور ناکام نظر آ رہے ہیں۔
موجودہ حکومت کی حالات پر قابو نہ پانے کی پہلی وجہ اس حکومت کے پاس عوامی مینڈیٹ کا نہ ہونا ہے۔ عام انتخابات کے بغیر وجود میں آنے والی ہائبرڈ حکومت کو عوام کی حمایت حاصل نہیں۔ عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ بے اختیار حکومت ہے جس کو خاص حلقوں کی طرف سے صرف خاص مقاصد کی تکمیل کے لئے لایا گیا ہے۔ حکومت جتنی بھی اہل اور قابل ہو مگر جب تک اس کے پاس عوام کی حمایت نہ ہو تو وہ حالات پر قابو نہیں پا سکتی اور نہ ہی ملکی مسائل کا کوئی حل نکال سکتی ہے۔
عمران خان کے موجودہ حکومت کی سیاسی اور عوامی ساکھ پر حملوں نے اس حکومت کی سیاسی طاقت اور قانونی حیثیت کو مزید متنازع اور کمزور کر دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں کے علاوہ مجودہ حکومتی اتحاد میں موجود پارٹیوں کے حامیوں کی اکثریت نے بھی اس حکومت کے سیاسی جواز پر سوالات اٹھانے شروع کر دیے ہیں۔
عوام اس وقت شدید الجھن اور تذبذب کا شکار ہیں کہ موجودہ حکومت اتنی خراب کارکردگی کے ساتھ اقتدار کے ساتھ کیوں چمٹی ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ موجودہ حکومت ان مخدوش حالات کے باوجود الیکشن کا اعلان کیوں نہیں کر رہی؟
ملک کے اس وقت کے زمینی حقائق سے یہ بات کافی حد تک واضح ہو چکی ہے کہ حکومتی اتحاد کا خراب کارکردگی کے باوجود اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنا اور پاکستان تحریک انصاف کا اس حکومت کو اس کے موجودہ سٹیٹس میں قبول نہ کرنا ایک تعنیاتی کے ارد گرد گھوم رہا ہے۔
اگر یہ بات درست ہے تو پھر ملک اور اس کی سیاست کے لئے یہ امر تشویشناک بھی ہے اور باعث شرم بھی کیوں کہ ایک غیر سیاسی ادارے کے سربراہ کی اپنی مرضی کے حساب سے تعیناتی کروانے پر پورے ملک کو سیاسی اکھاڑہ بنا دیا گیا ہے۔ حالانکہ حکومت اور اپوزیشن کے رہنما اپنی سیاسی بیان بازیوں میں پاکستان کی سیاست سے اسٹیبلشمنٹ کا خاتمہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
مگر آرمی چیف کی تعنیاتی والے معاملے پر دونوں اطراف کے بیانات دوغلی پالیسی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اب جب کہ نومبر کے آخر تک موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہو رہے ہیں، ان کی جگہ پر نئے آرمی چیف کی تعنیاتی یقینی طور پر ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ حالات کی غیر یقینی صورتحال سے کچھ چٹھکارا ملنے کا امکان ضرور ہے مگر اس کے باوجود پاکستان میں سیاسی استحکام آتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی و اقتصادی حالات کی سنگینی کو دیکھ کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان حالات سے نمٹنے کے لئے ایک مضبوط حکومت کی ضرورت ہے۔ وہ حکومت جس کے پاس عوام کے ووٹوں کا تازہ مینڈیٹ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ حکومت عوام کی نظر میں ایک جائز حکومت ہو جس کو عوام اپناتی بھی ہو اور اس کے فیصلوں میں اس کو سپورٹ بھی کرتی ہو۔
داخلی اور خارجی دونوں لیول پر اس حکومت کی رٹ کو مانا جاتا ہے جو عوام کی نظر میں جائز مانی جاتی ہو نا کہ وہ حکومت جس کو اپنانے کے لئے عوام تیار ہی نہیں ہے۔ موجودہ حکومت اور دیگر اداروں کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ ناگزیر کو جتنا التوا دیا جائے گا پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بڑھتا جائے گا۔ اور پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ ناگزیر عمل فوری الیکشن ہیں۔
اگر ایسا نہیں کیا گیا تو حالات مزید خون خرابے کی طرف جا سکتے ہیں۔ عمران خان پر قاتلانہ حملہ اسی خطرے کی پہلی کڑی نظر آتا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکن اور عمران خان کے حامی پہلے ہی موجودہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے دلبراشتہ نظر آتے ہیں۔
ان کے لیڈر پر حملے کے بعد تو ان کے پاس حالات کو مزید پُراشتعال بنانے کا سیاسی جواز بھی موجود ہے۔ لہٰذا اس امر کی ضرورت ہے کہ موجودہ حکومت فوری الیکشن کا اعلان کر کے پاکستان کو اور اس کے عوام کو مزید تصادم اور سیاسی عدم استحکام سے بچانے کی کوشش کرے۔ فوری الیکشن کا اعلان کر کے موجودہ حکومت اپنی بچی کھچی ساکھ کو مزید خراب ہونے سے بچا سکتی ہے۔
عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔