صحافت ایک ذمہ دارانہ پیشہ ہے جس کے ذریعے صحافی معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی راہ میں تمام رکاوٹوں اور چیلنجوں سے قطع نظر صحافی اور ان کی خبریں رائے عامہ کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ عام طور پر، سامعین کی خدمت کرنا اور انہیں آگاہ کرنا صحافیوں کے اہم ترین فرائض ہیں۔ آزادی اظہار اور آزادی صحافت کو عام طور پر ایک آزاد معاشرے سے منسوب کیا جاتا ہے جہاں شہریوں کے بنیادی حقوق کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ پاکستان کا وسائل سے مالا مال مغربی صوبہ بلوچستان اپنی جغرافیائی سیاسی اہمیت کے ساتھ گذشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کی شدید لہر کی زد میں ہے۔ دہشت گردی کی اس لعنت نے میڈیا ورکرز سمیت صوبے کے شہریوں کو شدید متاثر کیا ہے۔
میرا نام عمران مختار ہے، میں 2009 میں جیو نیوز میں بطور کیمرا مین کام کر رہا تھا، 2010 میں کوئٹہ میں یوم القدس کی ریلی میں خود کش حملے میں زخمی ہوا۔ مجھے یاد ہے رمضان کا مہینہ تھا اور اپنی ٹیم کے ہمراہ اس ریلی کی میڈیا کوریج پر گئے تھے کہ اس دوران شہر کے کاروباری علاقے باچا خان چوک پر ریلی میں زوردار دھماکہ ہوا اور ہر طرف افرا تفری مچ گئی۔ اس دھماکے کے نتیجے میں کئی افراد جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہوئے۔ ان زخمیوں میں میں بھی شامل تھا۔ اس دھماکے سے میرے جسم کے مختلف حصوں میں سپرنٹرز لگے۔ یہی نہیں، دھماکے کے بعد فائرنگ شروع ہو گئی۔ ایک طرف لاشیں پڑی تھیں، زخمیوں کی چیخ وپکار تھی تو دوسری طرف فائرنگ ہو رہی تھی۔
جو لوگ بچے تھے یا زخمی تھے، اپنی جان بچانے کے لئے بھاگ دوڑ رہے تھے۔ میں بھی شدید زخمی حالت میں اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہا تھا کہ کہیں فائرنگ کی زد میں نہ آ جاؤں۔ اس دوران میرا کیمرا ریکارڈنگ پر تھا۔ مجھے اس وقت کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ پیچھے کی طرف چلتے ہوئے گر پڑا۔ اس وقت خون بہہ جانے کی وجہ سے میری حالت مزید خراب ہو گئی۔ میں نے دیکھا میرا رپورٹر میرے پاس پہنچ گیا ہے اور دیگر ساتھیوں کی مدد سے مجھے جلدی سے اٹھایا اور کسی موٹر سائیکل پر بٹھا کر انہیں کہا کہ مجھے فوراً اسپتال پہنچا دیں۔ جیسے ہی اسپتال پہنچا تو وہاں دل دہلا دینے والے مناظر تھے۔
اسپتال میں ہر طرف زخمی افراد پڑے ہوئے تھے۔ علاج معالجہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت اور نئی زندگی عطا کی۔آج بھی جب وہ دن یاد آ جاتا ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اللہ پاک کسی دشمن کو بھی ایسا وقت نہ دکھائے۔ دھماکے کا منظر اور اس کے بعد اسپتال کی صورت حال شاید ساری زندگی نہیں بھول سکوں گا۔ اس وقت کوئٹہ کے حالات کافی خراب تھے، ٹارگٹ کلنگ، فائرنگ اور بم حملوں کے کئی واقعات پیش آئے تھے۔ ان میں دیگر افراد کے ساتھ ہمارے کئی صحافی، کیمرا مین، فوٹو گرافر اور میڈیا کے دیگر ملازم شہید یا زخمی بھی ہوئے۔ آج بھی مجھے ان حملوں میں شہید ہونے والے وہ ساتھی صحافی یاد آ جاتے ہیں تو دل افسردہ ہو جاتا ہے۔ تقریباً 2016 کے بعد میں لاہور شفٹ ہو گیا۔ وہاں کچھ عرصہ جیو نیوز میں کام کرنے کے بعد بول نیوز جوائن کر لیا۔
عمران مختار کا کہنا تھا کہ صحافتی تنظیمیں اور حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہیں۔ صحافی تنظیمیں صرف نام کی رہ گئی ہیں، تنظیم کے سینیئر عہدیداروں کا کام صحافیوں سے ووٹ لے کر اپنے گھر آباد کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ میں گذشتہ 20 سالوں سے صحافتی شعبے میں خدمات سرانجام دے رہا ہوں لیکن آج تک کسی سرکاری ادارے یا صحافتی تنظیم نے مجھے کوئی سیفٹی ٹریننگ نہیں دی ہے۔
بین الاقوامی صحافتی ادارے اپنے ورکرز کو باقاعدہ تربیت دیتے ہیں اور ہر چیز سے آگاہ رکھتے ہیں۔ ورکرز کو دھماکے، فائرنگ یا کسی کی طرف سے تھریٹس کی صورت میں کیسے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے، ان سب سے متعلق تربیت دی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے قومی نیوز چینلز صحافیوں سے کام ضرور کرواتے ہیں لیکن وقت پر معاوضہ ادا کرتے ہیں اور نہ ہی سیفٹی ٹریننگ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ صحافیوں کے نام پر بننے والی جتنی تنظیمیں ہیں، ایسا لگتا ہے یہ صحافیوں کے بہتر مفاد کے لئے نہیں بلکہ اپنے ووٹ کے حصول کے لیے بنی ہیں کیونکہ صحافیوں کے مفاد اور ان کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے ان تنظیموں کی کارکردگی صفر ہے۔
کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو ان کی حفاظت سے متعلق ٹریننگ دی جانی بہت ضروری ہے، خاص طور پر فیلڈ میں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے حفاظتی ٹریننگ نہایت ضروری ہے۔ صحافی جب فیلڈ میں اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہوتا ہے تو اس دوران اپنی اور اپنے ساتھیوں کی حفاظت کو یقین بنانا لازم ہے کیونکہ بلوچستان میں ماضی میں ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں جن میں صحافی زخمی اور شہید ہوئے ہیں۔ جہاں تک صحافیوں کی حفاظتی تربیت کا سوال ہے کہ کوئٹہ پریس کلب نے کتنی ٹریننگ کرائی ہیں تو اس حوالے سے بلوچستان یونین آف جنرنلسٹس اور کوئٹہ پریس کلب نے دیگر ٹریننگ دینے والے اداروں اور ماہر افراد کے ساتھ مل کر بلوچستان میں فیلڈ میں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے بڑی تعداد میں ٹریننگ سیشن منعقد کرائے ہیں جن میں بلوچستان سے صحافیوں کی بڑی تعداد نے حصہ لیا۔ اگرچہ خبر دینا بھی بہت ضروری ہے مگر اس سے کہیں زیادہ ضروری صحافی کی اپنی جان کی حفاظت کرنا ہے۔ دھماکے یا فائرنگ کے واقعات میں زخمی ہونے والے صحافیوں کی امداد کیلئے کوئٹہ پریس کلب نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔
ماہر نفسیات اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مجیب اللہ دوتانی کا کہنا ہے کہ عمومی جسمانی صحت کے علاوہ بہتر ذہنی صحت بھی ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن کئی وجوہات اور مسائل کی وجہ سے انسان کی ذہنی صحت دن بدن متاثر ہو رہی ہے۔ ایک صحت مند دماغ ہی روزمرہ زندگی میں سیکھنے اور آگے بڑھنے کے قابل بناتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں صحافی مشکل حالات میں رہتے ہوئے اپنی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ آئے روز امن و امان کی خراب صورت حال خاص طور پر بم دھماکوں، فائرنگ اور دھمکیوں کی وجہ سے بیش تر صحافی ذہنی دباؤ میں مبتلا ہیں۔ اس کے علاوہ صوبے کے صحافیوں کو بے روزگاری اور غربت جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ ان حالات میں صحافیوں کے ذہنی دباؤ میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر مجیب اللہ کا کہنا ہے بلوچستان میں صحافیوں کیلئے حفاظتی تربیت کی فراہمی کے علاوہ میڈیا دفاتراور نیوز روم کے ماحول کو بھی ٹینشن فری بنانا ہوگا۔ حکومت اور صحافتی تنظیموں کو صحافیوں کی سیفٹی ٹریننگ کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی صحت کے حوالے سے بھی ٹریننگ کا انعقاد کرنا چاہئیے تاکہ صحافی کسی بھی دباؤ سے بآسانی نکل سکیں اور کسی ذہنی دباؤ کے بغیر معمول کے مطابق اپنا کام جاری رکھ سکیں۔