شریف خاندان کا اقتدار اور رانا مشہود کی معصومیت

شریف خاندان کا اقتدار اور رانا مشہود کی معصومیت
رانا مشہود خان پاکستان مسلم لیگ نواز کے پرانے کارکن اور صوبائی لیول کے سیاستدان ہیں۔ نون لیگ کے ٹکٹ پر 2002 سے لاہور کی صوبائی اسمبلی کی نشست جیتے چلے آ رہے ہیں۔

معصوم سی شکل والے رانا صاحب کو نجانے کیا سوجھی یا کس کے کہنے پر جیو ٹی وی پر بیان داغ ڈالا کہ آئندہ دو ماہ بہت اہم ہیں اور پنجاب میں نون لیگ کی حکومت بن سکتی ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے نام لیے بغیر مقتدر قوتوں یعنی جنہیں ہم اسٹیبلشمنٹ کا نام دیتے ہیں کی طرف بھی اشارہ کر ڈالا کہ انہیں بھی اب سمجھ آ گئی ہے کہ شہباز شریف سے بہتر چوائس کوئی نہیں تھی، کیونکہ جنہیں وہ گھوڑا سمجھ رہے تھے وہ خچر نکلے۔

یہ بیان رانا صاحب سے دلوایا گیا ہے

میری نظر میں یہ بیان انہوں نے خود نہیں دیا، ان سے یہ بیان دلوایا گیا ہے کیونکہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں مسلسل دس سال تک حکومت کرنے والی جماعت اور پھر اس کے شریف لیڈروں کو شاید اپوزیشن میں بیٹھنے کی اب عادت نہیں رہی، اور پھر شریف خاندان سات سال سے زائد عرصہ جلاوطنی کی زندگی گزار کر 2007 میں واپس آیا تھا، وہ شاید حکومت سے باہر رہنے کا سوچ ہی نہیں رہا تھا۔

کیا ہوا اگر ایک بھائی اور اس کی بیٹی جیل چلے ہی گئے؟ دوسرا بھائی اور اس کا جانشین حمزہ شہباز تو موجود ہیں۔

آج کل حمزہ شہباز پنجاب ص میں ضمنی انتخابات کی مہم بھی چلا رہے ہیں، انہیں امید نہیں تھی کہ وہ ایک دم دس سال بعد اقتدار سے باہر ہو جائیں گے۔ نہ رہے گا سرکاری پروٹوکول نہ سرکاری حفاظت اور نہ سرکار کے خرچ پر آنیاں جانیاں۔

نون لیگ نے تو ٹیسٹ ہی کیا ہوگا پر تحریک انصاف کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے

رانا مشہود بیچارے لگتا ہے کہ اپنی معصومیت میں استعمال ہو گئے، نجانے اس کے پیچھے شریف خاندان ہے یا پھر کوئی خلائی مخلوق، یا کوئی جہازی مخلوق۔ اس بات کا امکان ہے کہ شریف خاندان نے ٹیسٹ کیا ہو کہ اس قسم کے بیان سے کیا رد عمل آتا ہے، کیونکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب میں عثمان بزدار کو بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنایا جانا ایک سوالیہ نشان ہے اور جب تک وہ رہیں گے ان پر، ان کی کارکردگی پر گہرے اور سنجیدہ سوال کیے جاتے رہیں گے۔ ان کی کابینہ میں علیم خان موجود ہیں جن کے لاہور میں زمینوں اور قبضوں کے معاملات اور نیب کیس یا ریفرنس اور اس پر انہیں کچھ خصوصی اختیارات ملنے جو وزیر اعلیٰ کے ہوتے ہیں، وہ بھی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ علیم خان نے خود تسلیم کیا کہ عثمان بزدار نے انہیں یہ خصوصی اختیارات دیے ہیں۔ پاکپتن کے پولیس چیف ڈاکٹر رضوان گوندل کا تبادلہ تحقیقات کے بعد ثابت ہو چکا ہے کہ یہ بیرونی دباؤ پر کیا گیا تھا۔ اب دیکھنا ہے کہ کیا سپریم کورٹ جس نے اس پر سوموٹو لیا تھا، بزدار صاحب کو کہیں آرٹیکل باسٹھ ایف ون کے تحت فارغ تو نہیں کر دے گی۔



رانا مشہود نے جو کیا پارٹی قیادت کے لئے کیا

رانا مشہود کی پارٹی رکنیت معطل ہو گئی، پارٹی نے ان کے بیان سے علیحدگی اختیار کر لی، ان کے بیان کو ذاتی بیان قرار دے دیا گیا۔ حالانکہ میری نظر میں رانا مشہود صوبائی لیڈر ہیں، پارٹی کے اہم لیڈر اور رکن صوبائی اسمبلی بھی ہیں، ان کا سیاسی بیان جو بھی ہو، اس کو پارٹی کا ہی سمجھا جانا چاہیے کیونکہ انہوں نے ذات کے لئے بیان نہیں دیا تھا بلکہ اپنی لیڈر شپ کے لئے حکومت کا خواب دیکھا تھا۔

یہ کوئی پہلا قربانی کا بکرا نہیں

نون لیگ نے یہی کام مشاہداللہ سی بھی کرایا تھا جب انہوں نے دھرنے کے حوالے سے کہا تھا کہ خفیہ ایجنسی کے اس وقت کے سربراہ ظہیر السلام دھرنے کے زریعے حکومت ختم کرانا چاہتے تھے، جس کے بعد پوری قیادت نے مشاہداللہ خان کے بیان سے علیحدگی اختیار کی، اور انہیں اکیلا چھوڑ دیا، بلکہ ان سے ماحولیات کی وزارت بھی چین لی گئی۔



اسی طرح جب پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو اس وقت ان کی پارٹی کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات فوزیہ وہاب مرحومہ جو ہماری کراچی یونیورسٹی کے زمانے سے دوست تھیں، نے پریس کانفرس کر کے امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کے بارے میں کہا کہ اس کے پاس سفارتی ویزا تھا جس کی وجہ سے انہیں ویانا کنوینشن کے تحت گرفتار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس بیان کے بعد میڈیا میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا، پارٹی قیادت نے ان کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے، اس بیان کو ان کا ذاتی بیان قرار دیا او بعد میں انہیں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ رانا مشہود، مشاہد اللہ، اور فوزیہ وہاب جیسے سیاستدان بیچارے اپنے لیڈروں یا ایسٹیبلشمنٹ کی بھیٹ چڑھتے رہیں گے۔ نہ جانے کب تک۔

پی ٹی آئی کو عملی اقدامات کی طرف آنا ہوگا

پی ٹی آئی کی حکومت کو رانا مشہود کے بیان کو انتہائی سنجیدگی سے لینا ہوگا اور پنجاب اور وفاق میں اپنی کارکردگی کو بڑھانا ہوگا، اپنی فیصلہ سازی کو گاڑیوں اور بھینسوں کی نیلامی سے نکال کر حقیقی ترقی اور اپنے منشور پر عمل درآمد کے لئے عملی اقدامات شروع کرنے ہوں گے، تاکہ حکومت کے جب سو دن مکمل ہوں تو لوگوں کو لگے کہ تبدیلی کے امکانات نظر آ رہے ہیں، ورنہ آج جو سیاست نظر آ رہی ہے اس سے تو لگ رہا ہے کہ تصادم کی ہی سیاست ہوگی۔

فواد چودھری درست کہتے ہیں مگر زبانی حملے کافی نہیں

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں جو صورتحال نظر آ رہی ہے، خاص کر وزیر اطلاعات فواد چودھری کی تقریریں اور اپوزیشن پر حملے، اس سے لگتا ہے کہ سیاست تصادم کی طرف جا رہی ہے۔ آج سینیٹ کے چیئرمین نے فواد چودھری پر دباؤ ڈال کر مشاہداللہ خان پر الزامات کے حوالے سے معافی منگوائی، فواد چودھری نے نیم دلی سے معافی تو مانگ لی پر جیسے ہی قومی ائر لائن میں مشاہداللہ کے بھائیوں کی غیر قانونی ترقیوں اور پوسٹنگز پر بیان شروع کیا تو سینیٹ چیئرمین نے اجلاس ملتوی کر دیا۔



میں فواد چوہدری سے متفق ہوں کہ نون لیگ کی حکومت نے پی آئی اے، سٹیل مل، ریڈیو پاکستان، پاکستان ٹیلی وژن کو تباہ کیا، ایسے ہی بہت سے اور ادارے ہیں جن کو نظر انداز کیا، پر تقریروں کے بجائے، عملی قانونی کارروائی کر کے ذمہ دار افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

کہیں لوگوں کو پرانا پاکستان ہی پھر سے اچھا نہ لگنے لگ جائے

حکومتی کردگی ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کا باوجود نظر نہیں آ رہی، کیونکہ اس نے اب تک جو کام کیا جو اقدام ا ٹھایا، اس پر یو ٹرن لے لیا، وہ چاہے معیشت دان عاطف میاں کی تقرری ہو یا بلوچستان کے گورنر کی، کابینہ کے محکموں کے حوالے سے معاملات ہوں یا، بجلی گیس پیٹرول کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ، آئی ایم ایف سے قرضہ لینا یا نہ لینا ہو، یا پھر دوستوں میں عہدے بانٹنا، پرانا پاکستان ہی نظر آیا۔

یہ نہ ہو کہ پرانا پاکستان کہیں لوگوں کو دوبارہ اچھا لگنے لگے جس کے امکانات کافی ہیں۔

مصنف سینئر صحافی ہیں اور ان سے asmatniazi@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔