پرائمری سکول کے زمانے سے علامہ اقبال کا کلام پڑھنا شروع کیا تھا۔ علامہ کی وجہ سے فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال کا نام بھی سننے کو ملتا تھا۔ میں اس وقت آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا جب ملک میں صدارتی انتخاب کی مہم چل رہی تھی جس میں ایوب خان کے مقابلے میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اپوزیشن کی امیدوار تھیں۔ میرا گھرانہ مادر ملت کا حامی تھا۔ ان دنوں یہ جان کر بہت خوشی ہوئی تھی کہ ڈاکٹر جاوید اقبال بھی مادر ملت کی حمایت کر رہے تھے۔
سنہ 1967 میں جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں فرسٹ ایئر میں داخل ہوا تو چند ماہ بعد پتہ چلا کہ انگلش لٹریری سوسائٹی کے اجلاس میں ڈاکٹر جاوید اقبال تشریف لا رہے تھے۔ میں ایک دوست کے ساتھ بڑے شوق سے انھیں سننے گیا۔ اس وقت بخاری آڈیٹوریم کے دائیں جانب ایک چھوٹا ہال ہوا کرتا تھا۔ وہاں یہ تقریب ہو رہی تھی۔ پہلی بار ڈاکٹر صاحب کو دیکھا تو ان کے چہرے کی صباحت اور وجاہت کا مجھ پر بہت رعب پڑا تھا۔ سچی بات ہے کہ ان کی انگریزی میں تقریر تو اس وقت کم ہی پلے پڑی تھی۔ اس کے بعد انھیں متعدد بار مختلف محفلوں میں سننے کا اتفاق ہوتا رہا، بالخصوص مرکزیہ مجلس اقبال کے سالانہ اجلاس میں جو 21 اپریل کو مال روڈ پر یونیورسٹی ہال میں منعقد ہوا کرتا تھا۔ اس میں ڈاکٹر صاحب کا مقالہ ایک کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا تھا۔
پنجاب یونیورسٹی کی ملازمت کے دوران میں متعدد بار ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے مواقع میسر آئے۔ 80 کی دہائی کی بات ہے جب ڈاکٹر صاحب ایم اے کے تھیسس کا زبانی امتحان لینے شعبہ فلسفہ میں تشریف لائے۔ اس وقت وہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز تھے۔ ہم نے سوچا کہ ڈاکٹر صاحب آ رہے ہیں تو ان کا ایک لیکچر بھی کرا لیا جائے تاکہ تمام سٹوڈنٹس ان سے مستفید ہو سکیں۔ ڈاکٹر صاحب اس روز 10 بجے صبح شعبہ میں تشریف لے آئے۔ چائے کے بعد کلاس روم میں ڈاکٹر صاحب نے گھنٹہ بھر سے زیادہ اپنا خطبہ ارشاد کیا جس میں امت مسلمہ کے زوال کے یہ اسباب بیان کیے: دنیا کا ہمارا دشمن ہونا، ہماری سنہرے ماضی سے متعلق رومان پسندی، پرانے خیالات پر جمے رہنا اور نئے افکار کو قبول نہ کرنا۔ ان کے علاوہ شاید کچھ اور بھی تھے جو اب یاد نہیں آ رہے۔
سوال و جواب کا سیشن شروع ہوا تو میں نے کہا، آپ نے جو زوال کے جو اسباب بیان کیے ہیں میں ان کے مقابلے میں یہودیوں کی تاریخ کو پیش کرنا چاہوں گا۔ جہاں تک دنیا کے دشمن ہونے کا تعلق ہے، یہودی ڈھائی ہزار سال تک ظلم و ستم کا شکار رہے ہیں جسے ول ڈیورانٹ نے کمال مہارت سے چند لفظوں میں سمو دیا ہے: Mobbed by the people, robbed by the kings.
جہاں تک رومان پسندی کا تعلق ہے ڈھائی ہزار سال تک ان کا سلام یہ رہا ہے، نیکسٹ ائیر یروشلم۔ اسرائیل کے قیام سے پہلے اس سے بڑے رومینٹسزم کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جہاں تک رجیڈٹی کا تعلق ہے تو سپائی نوزا کی کہانی سے فلسفے کا ہر طالب علم واقف ہے۔ ان تمام مشکلات کے باوجود یہودیوں کا انسانی علم اور تہذیب کو باثروت بنانے میں سب سے زیادہ حصہ ہے۔ اس کا کیا سبب ہے؟
میرے اس کمنٹ پر ڈاکٹر صاحب نے مسکرا کر کہا، اب میں اس کے سوا کیا کہہ سکتا ہوں کہ: They’re the chosen people of God.
تھیسس کا زبانی امتحان شروع ہونے سے پہلے وہ طالبہ بہت گھبرائی ہوئی میرے پاس آئی۔ وہ ڈاکٹر صاحب کے مقام و مرتبہ سے بہت ڈری ہوئی تھی۔ میں نے کہا، بیٹا گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ تم نے بس ڈاکٹر صاحب کی باتیں سنتے اور ان کے نوٹس لیتے رہنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب تم سے کوئی سوال نہیں پوچھیں گے۔ اور یہی ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ عجیب عادت تھی کہ طالب علم سے کچھ پوچھنے کی بجائے وہ خود ہی بات کرتے رہتے تھے۔ ویسے مقالہ پورا پڑھا ہوتا تھا۔ اس میں جو خامیاں ہوتیں ان کی نشان دہی کر دیتے لیکن طالب علم کو کسی مشکل میں نہیں ڈالتے تھے۔
ایک بار انھیں پی ایچ ڈی کے جس مقالہ کا ممتحن بنایا گیا وہ ناگوار حد تک ضخیم تھا۔ ایک روز شعبہ سے خاتون سیکریٹری نے ڈاکٹر صاحب کو فون کیا تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ زبانی امتحان کب تک ہو سکے گا۔ اس کی بدقسمتی کہ فون ڈاکٹر صاحب کی بیگم، جسٹس ناصرہ جاوید صاحبہ نے اٹھایا اور اس غریب کو بہت ڈانٹا کہ آپ لوگ اتنے موٹے موٹے تھیسس بھیج دیتے ہیں۔ ان کی 85 سال عمر ہو چکی ہے۔ اب بس کریں۔ خیر ایک دو ماہ بعد ڈاکٹر صاحب وائیوا کے لیے تشریف لائے۔ زبانی امتحان حسب معمول تھا۔ کوئی آدھ گھنٹہ سے زیادہ خود ہی گفتگو کرتے رہے اور مقالے میں جہاں کوئی کمزور بات تھی، اس کی طرف مقالہ نگار کو توجہ دلاتے رہے۔ امتحان ختم ہو گیا تو میں نے کسی قدر حیرانی سے پوچھا، سر آپ نے یہ سارا تھیسس پڑھا ہے؟ کہنے لگے، ہاں، ڈھائی مہینے لگ گئے ہیں اس کو پڑھنے میں۔
شعبہ فلسفہ میں ہونے والی ملاقاتوں کے علاوہ ان کے ساتھ تین چار ٹی وی پروگراموں میں بھی شرکت کا موقع میسر آیا۔ ان ملاقاتوں کا مجموعی تاثر یہ تھا کہ میں نے ان سے زیادہ بے تکان بولنے والا کوئی اور شخص نہیں دیکھا۔ شعبہ فلسفہ میں ان کی جس پہلی آمد کا ذکر ہوا ہے، اس روز وہ کوئی پانچ گھنٹے سے زاید وقت تک ہمارے ساتھ رہے تھے اور اس سارے عرصے میں مسلسل باتیں کرتے رہے تھے۔ ان کی گفتگو دلچسپ ہوتی تھی کیونکہ ان کے پاس بتانے کو بہت کچھ ہوتا تھا۔ مطالعہ بھی وسیع تھا۔ سفر بھی بہت کیے تھے۔ لاتعداد کانفرنسوں میں شرکت کی تھی۔ انھوں نے زندگی کو ہر رنگ میں دیکھا اور برتا ہوا تھا۔ چنانچہ اپنے تجربات ومشاہدات کو بلاتکلف اور بغیر کسی جھجھک کے بیان کر دیتے تھے۔
جیسا کہ عرض کیا، ڈاکٹر صاحب کی گفتگو دلچسپ اور معلومات افروز ہوتی تھی لیکن یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ کبھی کبھار پٹڑی سے اتر بھی جاتے تھے۔ ایک بار مرکزیہ مجلس اقبال میں اپنا مقالہ پیش کر رہے تھے۔ مجھے اس بات پر بہت صدمہ ہوا تھا کہ پورے مقالے میں وہ معیشت کو معشیت پڑھتے رہے اور انھیں ذرا احساس نہیں ہوا تھا۔ بعض لیکچر اور ٹی وی پروگرام بھی ایسے تھے جن میں لگتا تھا کہ نہ ان کی پوری تیاری تھی اور نہ شاید ذہنی طور پر حاضر تھے۔ ایک بار لمز میں ان کا لیکچر سننے کا اتفاق ہوا۔ بعد میں میرے شاگرد اور دوست شاہد احسان نے کہا، ایک لیکچر میں اتنے زیادہ منطقی مغالطوں کا ارتکاب ممکن تو نہیں لیکن آج ڈاکٹر صاحب نے اس ناممکن کو ممکن بنا دیا ہے۔
سنہ 2010 کے لگ بھگ کی بات ہے جب گلبرگ میں دبستان اقبال کی بنیاد رکھی جا رہی تھی۔ کچھ معاملات پر گفتگو کی خاطر مجھے بھی وہاں بلایا گیا کیونکہ میں اس وقت پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ فلسفہ کا سربراہ تھا۔ میں فلسفے کے استاد محمد جواد صاحب کو ساتھ لے کر وہاں گیا۔ ڈاکٹر صاحب کے علاوہ اقبال صلاح الدین بھی وہاں موجود تھے۔ کافی دیرتک ہم ڈاکٹر صاحب کی باتیں سنتے رہے۔ بیچ میں اپنے کیمبرج کے زمانہ قیام کے واقعات بھی سناتے رہے۔ جب ہم وہاں سے رخصت ہوئے تو جواد صاحب کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی گفتگو سنتے ہوئے ان کے تو کان لال ہو رہے تھے۔
دبستان اقبال میں ایک بار مجھے بھی لیکچر کے لیے مدعو کیا گیا تھا اور میرے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں جس 16 سالہ لڑکے نے پہلی بار ڈاکٹر صاحب کا لیکچر سنا تھا وہ 60 سال کی عمر کو پہنچ کر ڈاکٹر صاحب کے سامنے لیکچر دے رہا تھا۔ میرے لیے یہ بڑی مسرت کی بات تھی کہ ڈاکٹر صاحب نے وہ لیکچر پورا سنا اور بعد میں میری حوصلہ افزائی پر مبنی کلمات ادا کیے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال ایک طویل مگر بھرپور زندگی گزارنے کے بعد سات برس قبل آج ہی کے دن (3 اکتوبر 2015) اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے تھے۔ ان کے طرز زیست کو دیکھتے ہوئے بے اختیار یہ مصرع لبوں پر آتا ہے جو لگتا ہے شاید انھی کے لیے کہا گیا تھا:
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
ڈاکٹر ساجد علی فلسفے کے استاد ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے انہوں نے فلسفے میں ایم اے کیا جبکہ پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ چند سال قبل پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ سے بطور پروفیسر ریٹائر ہوئے ہیں۔