پچھلے دنوں معروف صحافی اور کہانی کار اقبال خورشید نے لاہور کے تاریخی اشاعتی گھر 'نیا ادارہ' کا ایک اشتہار شائع کیا تھا جو عبداللہ حسین کے ناول ' اداس نسلیں' کے حوالے سے تھا۔ ناول کو نیا ادارہ نے شائع ہونے سے پہلے ہی اردو کا تاریخی ناول قرار دے دیا تھا۔ اگرچہ یہ کاروباری نقطہ نظر سے ایک بہترین حکمت عملی تھی مگر کسے پتہ تھا کاروباری نقطہ نظر سے لکھا گیا یہ جملہ تاریخ رقم کر دے گا۔
جب اداس نسلیں شائع ہوا تھا تو اردو زبان و ادب کے سمندر میں تلاطم برپا ہو گیا یوں۔ آج تک یہ ایک عظیم الشان ناول کی حیثیت اختیار کر چکا ہے بلکہ ایک عقیدے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ پھر جب میں نے پڑھا کہ اگست عبداللہ حسین کی پیدائش کا مہینہ ہے تو یادوں کی کتاب کے کئی قرطاس کھلتے چلے گئے۔ ان کے ساتھ ہونے والی ملاقاتیں یاد آتی گئیں۔ زندگی کی 18 سالہ فلم کا پیچھے کا فلیش بیک چل گیا جب میری روزنامہ خبریں میں نوکری شروع ہوئی تھی۔ میں ادبی ثقافتی سرگرمیوں کو رپورٹ کرتا تھا اور سنڈے میگزین کے لئے انٹرویو بھی کرتا تھا۔ ضیاء شاہد مرحوم اخبار کے مدیر اعلیٰ تھے۔ ان کی ذاتی زندگی جو بھی تھی مگر بطور صحافی ان جیسا پروفیشنل اور ذہین ترین انسان میں نے اپنے صحافتی کیریئر میں کم ہی دیکھا ہے۔
میں نے کچھ ادبیوں کے نام لکھ کر ضیاء شاہد کے پی اے کو دیے کہ ان کے انٹرویو کرنا چاہتا ہوں۔ ضیاء صاحب نے نیلے رنگ سے اوکے لکھ دیا مگر عبداللہ حسین کے نام پر لال پین سے لکھا کہ فوراً انٹرویو کیا جائے۔ میں وہ فہرست لے کر شعبہ رپورٹنگ میں اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہاں میرے سینیئر نے فہرست دیکھی جو خود بھی شاعر تھے اور ادبی حلقوں کی جانی پہچانی شخصیت تھے (نام بوجوہ نہیں لکھا آگے چل کر وجہ لکھوں گا)۔ فہرست دیکھ کر انہوں نے کہا یار یہ عبداللہ حسین بہت مغرور ہے، یہ تو انٹرویو نہیں دے گا، اب تم کو ضیاء شاہد سے ڈانٹ پڑے گی۔ دیگر ساتھیوں نے بھی مسکرا کر میری طرف دیکھا کیونکہ وہ سب اس تاریخ ساز ڈانٹ سے فیضیاب ہو چکے تھے۔
خیر میں نے ان کی بات سنی ان سنی کر دی۔ عبداللہ حسین صاحب کے گھر ٹیلی فون کیا۔ فون انہوں نے خود اٹھایا۔ سلام کے بعد میں نے عرض کیا، سر میں افسانہ نگار ہوں اور اپنے افسانوں کی پہلی کتاب (کون لوگ) آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے حاضر ہونا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر انہوں نے پدرانہ شفقت سے گھر آنے کی دعوت دی اور گھر کا پتہ بتا دیا۔ میں دو گھنٹے بعد ان کے روبرو موجود تھا۔ ان کو کتاب پیش کی۔ انہوں نے چائے منگوائی۔ یوں ادبی گپ شپ شروع ہو گئی۔
خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
اب بھی وہ لمحات یاد آتے ہیں تو اعصاب خوشگوار ہو جاتے ہیں۔ ایک عظیم فکشن لکھنے والے کے ساتھ ایک نووارد کی گفتگو قابل فخر بات تھی۔ خیر ایک گھنٹہ کی گفتگو کے بعد میں نے ڈرتے ڈرتے مدعا بیان کیا۔ وہ خاموش ہو گئے۔ چند لمحے مجھے دیکھتے رہے پھر بولے، اخبار کا کیا نام بتایا ہے۔ میں نے جواب دیا روز نامہ خبریں۔ وہ پھر بولے، میں طویل عرصے بعد لندن سے وطن واپس آیا ہوں، اردو اخبارات میں صرف جنگ اور نوائے وقت کا پتہ ہے مگر یہ جو نام تم نے بتایا ہے خبریں ادھر سے ایک صحافی جو شاعر بھی ہے اس نے مجھے انٹرویو کے لئے فون کیا تھا۔ ساتھ ہی کہا اپنی کتابوں کے نام بھی بتا دیں جس پر میں نے اسے ڈانٹ کر فون بند کر دیا۔ یار کچھ زیادہ ہی سختی سے ڈانٹ دیا تھا۔
اس کے بعد عبداللہ حسین نے میری طرف دیکھ کر کہا، میری طرف سے سوری کہہ دینا، مگر تم کو میں انٹرویو ضرور دوں گا، کیونکہ تم نے میرے ناول پڑھے ہوئے ہیں، تمہارے ساتھ باتیں کر کے پتہ چل گیا ہے کہ تم مطالعہ کر کے آئے ہو اور خود بھی صاحب کتاب ہو مگر میری ایک شرط ہے۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئے۔ جی کیا؟ میں ہمہ تن گوش ہو گیا۔ ایک تو سوالات لکھ کر مجھے دے جاؤ، میں چند دن بعد جوابات لکھ کر تم کو دوں گا اور ان جوابات میں سے ایک جملہ بھی حذف نہیں ہو گا، کیونکہ میں نے جنگ لندن کو انٹرویو دیا تھا 1996 میں، اب یہ 10 سالوں بعد پہلی بار کسی پاکستانی اردو اخبار کو لاہور میں انٹرویو دے رہا ہوں۔
میں 10 سوالات لکھ کر ان کو دے کر چلا آیا۔ دفتر جا کر سنڈے میگزین کے انچارج ندیم اپل کو عبداللہ حسین کی شرط بتا دی۔ انہوں نے کہا ایسا ہی ہو گا۔ چند دن بعد عبداللہ حسین صاحب نے میرے موبائل پر کال کی اور کہا، ابھی آ سکتے ہو؟ میں نے جوابات لکھ دیے ہیں۔ میں نے کہا، سر ایک گھنٹہ کے اندر پہنچ رہا ہوں۔ میں نے موٹرسائیکل طوفانی رفتار سے چلائی۔ ایک گھنٹے میں میں ان کے روبرو تھا۔ میرے سامنے جوابات لکھے پڑے تھے۔ بولے، چائے کا کہہ دیا ہے یہ جوابات مجھے پڑھ کر سناؤ۔ میں نے آرام آرام سے پڑھنا شروع کیا۔ وہ خاموشی سے سنتے رہے۔ خاتمے پر مجھے شاباش دی۔ پھر ہم نے چائے پی۔
میں انٹرویو کا مسودہ لے کر دفتر آ گیا۔ جب اتوار کو انٹرویو میگزین میں شائع ہو گیا اس دن میری چھٹی تھی۔ 12 بجے عبداللہ حسین کا فون آ گیا۔ بہت خوش تھے۔ انٹرویو من وعن شائع ہوا تھا۔ شام کی چائے کی دعوت دی۔ یوں عبداللہ حسین صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ لگ بھگ 5 یا 6 بار ان کے گھر گیا۔ وہ یادیں زندگی کا اثاثہ ہیں۔ اسی انٹرویو کو ان کی رحلت کے بعد ہفت روزہ 'ہم شہری' میں کچھ رد و بدل کے ساتھ دوبارہ شائع کیا تھا۔
اردو زبان و ادب کا یہ عظیم ناول نگار جس کے قلم سے اداس نسلیں، نادار لوگ، باگھ اور قید جیسے ناول اور نشیب جیسی افسانوں کی کتاب نکلی، آج بھی ان کا فن ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔ بلاشبہ اداس نسلیں اردو زبان و ادب کے پانچ بڑے ناولوں میں ہمیشہ موجود رہے گا۔