Get Alerts

بلوچستان کی اداس نسلیں کبھی امید کی کرن دیکھ پائیں گی؟

دہشت گردی اور پُرتشدد کارروائیاں، بلوچستان سے اٹھنے والی ناراض آوازیں، مسنگ پرسنز کی عدم بازیابی اور ماورائے عدالت قتل کی وارداتیں ناصرف امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں بلکہ امن کے قیام کے لیے کی گئی کوششوں کو ناکام کرنے کی بھی بڑی وجہ بن رہی ہیں۔

بلوچستان کی اداس نسلیں کبھی امید کی کرن دیکھ پائیں گی؟

اگست کے آخری ہفتے میں پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں ایک ہی دن میں تشدد کی مختلف کارروائیوں میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ ان میں سب سے بڑی کارروائی موسیٰ خیل میں کی گئی جس میں 23 افراد کو بسوں سے اتار کر ہلاک کر دیا گیا، جبکہ 35 گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ ان پُرتشدد کارروائیوں میں 16 سکیورٹی اور پولیس اہلکار اور 21 عسکریت پسند بھی ہلاک ہوئے۔ ان پُرتشدد کارروائیوں کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی۔

ایک ہی دن کی ان کارروائیوں کے بعد پورے ملک میں ایک نا ختم ہونے والی بحث کا سلسلہ جاری ہے کہ آخر بلوچستان کا مسئلہ ہے کیا اور اس کا حل کیا ہے؟

قیام پاکستان سے اب تک بلوچستان کے مسئلے کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور 1947 سے 1948 تک کا ہے۔ ابتدا میں خان آف قلات نواب احمد یار خان نے پہلے آزادی کا اعلان کیا اور کئی بار پاکستان کے ساتھ الحاق سے انکار کیا۔ تاہم اکتوبر 1948 میں فوجی دستے ناصرف قلات میں داخل ہو گئے بلکہ انہوں نے خان آف قلات کی رہائش گاہ پر حملہ کر کے اسے گرفتار کر لیا۔ ان کے ساتھ بڑی تعداد میں بلوچ لیڈرشپ بھی گرفتار ہوئی۔ بعد میں خان آف قلات نے مغربی پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ خان آف قلات پر الزام لگا کہ وہ بلوچستان کا بھارت کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے۔ یہ ویسا ہی الزام لگتا ہے جیسے ایم کیو ایم پر الزام لگا تھا کہ وہ جناح پور کے قیام کے لیے عسکریت پسند کارروائیاں کرتی ہے، جو بعد میں غلط ثابت ہوا۔

طویل عسکری اور جوابی فوجی کاروائیوں کے بعد جولائی 1971 میں بلوچستان کے الگ صوبے کے قیام کا اعلان ہوا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کے قیام کے بعد بلوچستان میں پُرتشدد کارروائیوں کا دوسرا دور مئی 1973 سے شروع ہوا جو جولائی 1977 تک جاری رہا۔ اس دوران نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) جسے 1970 کے انتخابات میں 20 میں سے 8 نشستیں ملی تھیں، اس پر اور بلوچوں پر الزام لگا کہ افغانستان اور عراق سے علیحدگی پسندوں کو اسلحہ فراہم ہو رہا ہے۔ اسلام آباد میں عراقی سفارت خانے سے اسلحہ برآمد بھی ہوا، جس کے بعد نیپ پر پابندی لگی۔ نیپ کے سربراہ خان عبدالولی خان گرفتار ہوئے۔ بلوچستان میں مبینہ علیحدگی پسندوں کے خاتمے کے لئے ناصرف فوجی کارروائی کی گئی بلکہ پہاڑوں پر گئے مری، مینگل اور بگٹی قبائل کے عسکری گروہوں پر فضائی حملے بھی کیے گئے۔ اس دوران 12 ہزار سے زائد افراد جن میں سویلین، عسکریت پسند اور فوجی اہلکار شامل تھے، مارے گئے۔

تیسرا دور 1977 سے شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ اس میں کئی اُتار چڑھاؤ آئے لیکن شدت اس وقت آئی جب فوجی آمر پرویز مشرف دسمبر 2005 میں کوہلو میں ایک جلسہ سے خطاب کے لیے پہنچے تو کوہلو میں کئی راکٹ فائر کیے گئے۔ اس کے بعد بلوچستان میں فوجی کارروائیاں عروج پر پہنچ گئیں، خاص طور پر بگٹی قبیلہ ٹارگٹ بنا۔ بگٹی سردار اور بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ نواب اکبر خان بگٹی جو تمام بلوچ قبائل میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، انہیں اپنا علاقہ ڈیرہ بگٹی چھوڑ کر پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی۔ جنرل مشرف پر حملے کے 8 ماہ بعد ڈیرہ بگٹی کے قریب پہاڑوں میں ایک فوجی آپریشن میں وہ اپنے 37 ساتھیوں سمیت مارے گئے۔ اس آپریشن میں فوج کے 6 افسروں سمیت 21 سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔

بلوچ لیڈرشپ اور سیاسی گروپس ہمیشہ کی طرح بلوچستان میں قدرتی وسائل یعنی تیل، گیس اور معدنیات میں بلوچستان کے عوام کے لیے بڑے حصے کے حصول، سیاسی عمل میں حقیقی لیڈرشپ کی شرکت، وفاق میں مناسب شراکت اور صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ موجودہ پُرتشدد سلسلہ اس وقت تیز ہوا جب 2002 میں گوادر میں بڑے بڑے ترقیاتی پروجیکٹس شروع ہوئے جو اب تک جاری ہیں۔ گوادر کے عوام ان منصوبوں کے آغاز سے پہلے اور اب تک پسماندگی، غربت، افلاس اور بے روزگاری کے شکار ہیں۔

بلوچستان کی بیش تر مقامی آبادی بجلی، پانی، صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ 2004 میں چودھری شجاعت حسین کی سربراہی میں بلوچستان کے عوام کی محرومی دور کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنی۔ پھر پیپلز پارٹی کے دور میں 2008 میں 'آغاز حقوق بلوچستان' کا پیکج شروع ہوا۔ ن لیگ نے اس امید پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو وزیر اعلیٰ بنایا کہ وہ قوم پرستوں کو ملا کر مسائل کا کوئی حل نکال سکیں۔ عمران خان کے دور حکومت میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر مینگل نے مسنگ پرسنز کی بازیابی کی شرط پر پی ٹی آئی کی سپورٹ کا اعلان کیا، تاہم خفیہ ہاتھوں نے باپ پارٹی بنا کر بلوچستان اس کے حوالے کر دیا۔ بلوچستان کے عوام نے تشدد کے بڑھتے واقعات اور مسنگ پرسنز میں اضافے اور ان کی بازیابی کے لئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں خواتین کی لیڈرشپ کو آگے کیا کہ شاید مسائل حل ہو جائیں اور مسنگ پرسنز بازیاب کرائے جا سکیں۔ ماہ رنگ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ سخت ترین سردیوں میں اسلام آباد میں دھرنا دیا اور گوادر میں لانگ مارچ کیا۔ ماہ رنگ نے کہا کہ 'یہ تحریک نوکنڈی سے لے کر پاروم اور کوہ سلیمان سے مکران تک بلوچ عوام کی آواز تھی'۔ تاہم معاملات ہیں کہ سلجھنے کا نام تک نہیں لے رہے۔

اختر مینگل جو موجودہ قومی اسمبلی کے منتخب رکن ہیں، نے بھی مایوس ہو کر اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کی لیڈرشپ نے ان سے ملاقات کر کے ان سے استعفیٰ واپس لینے کی درخواست کی۔ بین الصوبائی رابطوں کے وفاقی وزیر رانا ثناء اللہ نے اختر مینگل سے ملاقات کے بعد میڈیا کو بتایا کہ 'ہم اختر مینگل کے تحفظات سے حکام کو آگاہ کریں گے'۔ یعنی وزیر اعظم کا نمائندہ اور کابینہ کا اہم رکن بھی اتنا بے اختیار ہے کہ وہ 'متعلقہ حکام' کو صرف تحفظات سے ہی آگاہ کر سکتا ہے، ان کو دور کرنے یا حل کرنے کا اختیار اس کے پاس بھی نہیں۔ چنانچہ اختر مینگل صورت حال سے مایوس ہو کر استعفی واپس لیے بغیر دبئی روانہ ہو گئے۔ تاہم، پیپلز پارٹی کے سردار جمال رئیسانی جیسے نوجوان رکن پارلیمنٹ اب تک وفاق کے اندر رہتے ہوئے مسائل کے حل کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔

تاہم دہشت گردی اور پُرتشدد کارروائیاں، بلوچستان سے اٹھنے والی ناراض آوازیں، مسنگ پرسنز کی عدم بازیابی اور ماورائے عدالت قتل کی وارداتیں ناصرف امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں بلکہ امن کے قیام کے لیے کی گئی کوششوں کو ناکام کرنے کی بھی بڑی وجہ بن رہی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور سکیورٹی فورسز بلوچستان کی صورت حال کو پاکستان اور چین کے درمیان پاک چین اکنامک کوریڈور سے جوڑتی ہیں جن کے مطابق چونکہ سی پیک شاہراہ کا بڑا حصہ بلوچستان سے گزرتا ہے اور گوادر کی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ اہم ترین حیثیت رکھتے ہیں لہٰذا بی ایل اے کو غیر ملکی قوتیں سی پیک پر عمل درآمد میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں تاکہ 65 ارب ڈالر کا یہ اہم منصوبہ جو چین کی بیلٹ اینڈ روٹ کا اہم ترین حصہ ہے، اسے مکمل نہ ہونے دیا جائے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بلوچستان کے عوام کو ترقیاتی عمل میں شریک کیے بغیر سی پیک یا کسی بھی منصوبے کے ثمرات حاصل ہو سکتے ہیں؟ کیا عسکریت کا خاتمہ صرف فوجی آپریشنز سے ہی ممکن ہے؟ اور کیا صحت، تعلیم، پینے کا پانی، بجلی اور دوسری بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے بغیر بلوچستان کے حساس عوام، چاہے بلوچ ہوں یا پشتون یا پھر براہوی یا ہزارہ، ان کی محرومیاں دور ہو سکتی ہیں؟ ان سب سوالوں کا جواب نہ میں ہی ملتا ہے کیونکہ آپریشن پر آپریشن سے ناصرف دوریاں بڑھیں گی بلکہ دراڑیں گہری سے گہری ہوتی چلی جائیں گی جنہیں پُر کرنا ناممکن ہوتا جائے گا۔

معروف سماجی کارکن ڈاکٹر قرۃ العین بختیاری نے ایک تقریب میں کیا خوب کہا کہ بلوچستان کی زمین کے نیچے جو معدنیات ہیں ان کو ہمارا ملک بہت اچھی طرح جانتا ہے، لیکن اس کے اوپر جو انسان ہیں ان کو نہیں جانتا۔ وہ کیسے جیتے ہیں، سب سے کم این ایف سی ایوارڈ لے کر اپنا سب کچھ دے دیتے ہیں اور دیتے ہی جا رہے ہیں۔ چھوٹے سے کوئٹہ شہر کا ہر فرد کم سے کم تین اور زیادہ سے زیادہ سات زبانیں بولتا ہے، ہاورڈ کے پروفیسر نے کوئٹہ کو The most enlightened City of the world کہا تھا۔

مصنف سینئر صحافی ہیں اور ان سے asmatniazi@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔