کرتارپور راہداری سے جڑی کچھ یادیں

کرتارپور راہداری سے جڑی کچھ یادیں
ایک ہندوستانی صحافی نے کرتارپور راہداری کے افتتاح سے واپسی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ”میں نے آج سے بیف کھانا شروع کر دیا ہے“۔ مجھے جان کر خوشی ہوئی کہ سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے صحافی نے پاکستان سے محبت کے اظہار میں اپنے خاندان کے باقی افراد کے برعکس گوشت کھا کر ہندوستان میں تنگ نظری اور مذہبی شدت پسندی کے خلاف دبے الفاظ میں انقلابی سوچ کا اظہار کیا۔

صرف یہی نہیں میں نے باقی صحافیوں میں بھی ایسی سوچ پائی۔ اگرچہ انھوں نے کھل کر اظہار نہیں کیا۔ گورنر ہاؤس میں بھارتی صحافیوں کے اعزاز میں دیئے جانے والے عشائیے میں دال اور سبزی کی تمام ڈشز موجود تھیں۔ چکن اور گوشت کا نام و نشان بھی نہ تھا اور اس عشائیے کا اہتمام خصوصی طور پر بھارتی صحافیوں کے لیے کیا گیا تھا کہ شاید وہ گوشت پسند نہ کریں اور ہم سب کو بھی مجبوراً سبزی خور بننا پڑا، لیکن عشائیے کے اختتام پر بھارتی صحافیوں کے تاثرات اس کے برعکس تھے کہ کھانے میں گوشت کی کوئی ڈش نہیں تھی۔

چنانچہ اگلے دن عشائیے میں گوشت کی بنی ڈشز کا خصوصی طور پر اہتمام کیا گیا۔ میں نے بھارتی صحافیوں سے پاکستان کے بارے میں کوئی منفی گفتگو نہیں سنی۔

البتہ دو چار چیزیں ایسی تھیں کہ جن کے بارے میں جان کر ہمیں خوشی ہوئی، جیسے ان کا کہنا تھا کہ”انھوں نے بہت عرصے بعد لاہور میں نیلا آسمان دیکھا کیونکہ دلی میں تو اتنی فضائی آلودگی ہے کہ آسمان کا اصل رنگ بھی دکھائی نہیں دیتا۔“

بھارتی صحافیوں کے لاہور میں مصروف ترین دو دنوں میں انھیں گھومنے پھرنے کا زیادہ موقع نہیں ملا۔ ہاں البتہ انہیں ایک مقامی شاپنگ مال میں لے جایا گیا۔

مجھے خوشی تھی کہ خواتین صحافیوں کو پاکستان کے مقامی برانڈز خصوصاً کھاڈی، جنریشن اور لائم لائٹ بہت پسند آئے اور انھوں نے دل کھول کر کپڑے خریدے. وینیتا پانڈے جب پاکستانی برانڈ کا کرتا پہنے واپس ہندوستان جا رہی تھیں تو وہ ہندوستانی سے زیادہ  پاکستانی دکھائی دے رہی تھیں۔

کپڑے اور زیور تو ویسے بھی عورت کی کمزوری ہیں۔ جہاں سے اچھا ملے، خریدنا فرض بنتا ہے۔ کپڑے خریدنے میں مرد حضرات بھی کچھ پیچھے نہ تھے۔ انھوں نے بھی اپنی فیملی اور دوستوں کیلئے کپڑے خریدے۔

بھارتی صحافیوں سے مل کر، ان کے ساتھ گھوم  پھر کر بالکل بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ ہمارا تعلق ان ممالک سے ہے، جن کے درمیان سرد جنگ پچھلی سات دہائیوں سے جاری ہے اور یہ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کشمیریوں کو انسانی حقوق کے تحفظ کے تحت حق خوداراویت نہیں دیا جاتا۔

بھارت کو اپنی پرانی سوچ سے نکل کر نئی سوچ اپنانی چاہیے۔ بابا گرونانک کے  550 ویں جنم دن کے موقع پر کرتا رپورر اہداری کا افتتاح کر کے وزیراعظم پاکستان نے کشادہ دلی کا ثبوت دیا اورستر برسوں کے بعد سکھ برادری کو اپنے مذہبی رہنماء گورو نانک کے ڈیرے تک بغیر ویزا رسائی دی گئی۔ نہ صرف رسائی دی بلکہ ایسا خوبصورت و دلکش تعمیراتی کام کیا گیا کہ شاید تاریخ میں کسی مذہبی گروہ کی مذہبی عمارت کو اتنے شاندار طریقے سے تعمیر نہیں کیا گیا اور نہ ہی اتنے وسیع پیمانے پر اس کا افتتاح کیا گیا۔ سکھ زائرین اور بھارتی صحافیوں کے لیے عام پاکستانیوں کی طرح دس ماہ میں مکمل کیے جانے والا تعمیراتی کام نہ صرف حیران کن بلکہ وہ اس کی خوبصورت فنی تزئین و آرائش سے مزین گوردوارے کو دیکھ کر کسی سحر میں مبتلا تھے۔

خواجہ معاذ جو بھارت میں پاکستان کے پریس اتاشی کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، نے بتایا کہ ایک صحافی خاتوں میناکشی تو یہ بھی بھول گئی کہ وہ کرتاپورکی کو ریج کیلئے آئی تھی۔ اور مکمل طورپر اس گوردوارے کی خوبصورتی میں روحانی طور پر کھو گئی۔

پوری دنیا نے دیکھا کہ پاکستان نے ہندوستان کی سکھ برادری کے لیے اپنا دل کھول دیا اور بھارت کو امن کا پیغام دیا۔ بھارت کو اس پیغام کا جواب خوش دلی سے دینا چاہیے۔بھارت سے آنے والی واشنگٹن پوسٹ کی نمائندہ نیہا مسیح نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان میں قیام و طعام کا سارا خرچ اپنے اخبار کی پالیسی کو اپناتے ہوئے خود ادا کریں گی۔ اگرچہ باقیوں کی طرح  ان کا خرچ ہماری وزارت اٹھاتی تو ہمیں ذیادہ اچھا لگتا کیونکہ وہ پاکستان کی مہمان تھیں لیکن مجھے ان کے فیصلے سے خوشی بھی محسوس ہوئی۔



اسی طرح جب واپسی پر تمام مہمانوں کی طرح ان کو بھی ایک چھوٹا سا تحفہ دیا گیا  تاکہ وہ پاکستان کو یاد رکھیں لیکن  وہ انکاری تھیں کہ وہ تحفہ قبول نہیں کر سکتیں لیکن وینیتا پانڈے نے ان کو خوب سمجھایا بجھایا کہ یہ کوئی رشوت نہیں چھوٹا سا تحفہ ہے جو انھیں قبول کر لینا چاہیے۔

وہ اپنا ماضی کا قصہ سنانے لگیں کہ پچھلی بار جب میں  میرا  جی کی امی سے ملی تو انھوں نے بیٹی سمجھ کر  سر پر دوپٹہ اوڑھا دیا اور یہ بھی تحفہ اسی طرح ہے  جو انھیں عزت دینے کے لیے دیا گیا ہے۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی بھارتی صحافیوں کی پاکستان میں دو دن قیام کی تو ان کو خوش آمدید کہنے سے لے کر رخصتی تک وزارت اطلاعات کے افسران ڈی جی ای پی ونگ سعید جاوید، ڈپٹی ڈائریکٹر  اسرار اور عمر  بڑی محنت اور خوشی دلی سے دن رات ان کی خدمت میں مصروف رہے۔

ہمارے افسر خواجہ معاذ نے بھی ان کی ضروریات کا اچھے طریقے سے خیال رکھا۔ خاص کر لاہور کی سیکیورٹی پر مامور افسران اور سٹاف نے بھی بھارتی صحافیوں کے کرتارپور دورے کو کامیاب بنانے میں انتہائی پروفیشنل طریقے سے فرائض انجام دیئے۔

کرنل عمران جن کو اس دورے کی سیکیورٹی کا انچارج بنایا گیا تھا، رات گئے تک اپنی ٹیم کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ البتہ ہمارے بھارتی صحافی بھائی اکثر اتنی سیکیورٹی کے بارے میں سوال کرتے رہے لیکن انھیں بتایا گیا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور آپ کی حفاظت کرنا ہمار اولین فرض ہے۔

البتہ کچھ صحافی خواتین پولیس اور ر ینجرز کے جوانوں کی خوبصورتی کو بھارتی مشہور اداکاروں سے بھی زیادہ پسند کرتی رہیں۔ لاہور پچھلے چند سالوں میں کافی بدل چکا ہے، صاف کشادہ سڑکوں اور بڑے شاپنگ مالز نے لاہور کی رونقوں میں اضافہ کیا ہے۔  اس تبدیلی کو بھارتی صحافیوں نے بھی محسوس کیا۔

یہ رونقیں آباد رہیں اور پاکستان شادباد رہے۔