پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم کا کہنا ہے کہ اے آر وائی، بول اور عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے پالے ہوئے ہیں اور انہی کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ صبح شام اے آر وائی سے گالیاں سنتے ہیں اور ڈی ایچ اے لاگونا پروجیکٹ میں ان کے پارٹنر بھی ہیں۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ڈی ایچ اے والوں کے کون سے راز ہیں جس کی وجہ سے وہ اے آر وائی کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہے ہیں۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو "خبر سے آگے" میں گفتگو کرتے ہوئے ابصار عالم کا کہنا تھا کہ آج کے فیصلے میں جس طرح عمران خان کو بری کر دیا گیا، اب یہ سہولت سب کو حاصل ہو گئی ہے کہ وہ جج کا نام لے کر اسے سرعام دھمکیاں دے سکتے ہیں اور ان کو بغیر معافی مانگے معافی بھی مل سکتی ہے۔ آج کے فیصلے نے یہ نظیر قائم کر دی ہے۔ عدالتوں کی قلابازیاں دیکھتے دیکھتے ہم بوڑھے ہو رہے ہیں مگر کسی جج کے ضمیر پہ کبھی اس کا اثر نہیں پڑا۔ یہ اتنی گیمیں کرتے ہیں اور بالکل باز نہیں آ رہے۔ سیاسی جماعتوں میں موروثیت پہ اعتراض کرتے ہیں اکثر جج خود اپنے بڑوں کی انگلیاں پکڑ کر عدالتوں میں آئے ہیں۔ عدلیہ کو جرنیلوں کے بارے میں بھی سخت رویہ اپنانا چاہئیے۔
ایکسپریس اخبار کے کالم نگار مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ آج کا فیصلہ یکساں انصاف کی نفی ہے۔ یہ انصاف کا مذاق اڑانے جیسا ہے۔ ہمارے ملک میں مقبول کے لئے اور نظاف انصاف ہے اور غیر مقبول کے لئے اور نظام انصاف ہے۔ پاکستان میں نااہلی کا تعلق انصاف کے تقاضوں سے زیادہ سکرپٹ اور پولیٹیکل ٹائمنگ سے ہوتا ہے۔ خان اگلے الیکشن سے پہلے ضرور نااہل ہو جائیں گے۔ آج کے فیصلے نے توہین عدالت کے ان تین فیصلوں کی نفی کی ہے جو اس نے ریفرنس کے طور پر اس کیس کے ساتھ اٹیچ کیے تھے۔
جس کیس میں ریفرنس ہی نہیں فائل ہوا تھا اس میں آپ نے دو ڈھائی سال سے بدمعاشی کے ساتھ، دھکا شاہی کے ساتھ پاسپورٹ ضبط کیے رکھا۔ یہ سخت ناانصافی ہے۔ اسی لیے جسٹس جاوید اقبال کو ڈی جی نیب رکھا گیا کیونکہ وہ عمران خان کے کہنے پر اس طرح کے کام کر لیتے تھے کہ فلاں کا پاسپورٹ رکھ لیں فلاں کو پکڑ لیں۔
پاکستان میں اب اسٹیبلشمنٹ صرف فوج ہے اور باقی سب طبقوں کو وہ اپنا محکوم سمجھتی ہے، رعایا سمجھتی ہے۔ سیاست دانوں اور ججوں کی مقدس حیثیت ختم ہو گئی ہے، صرف فوج کی مقدس حیثیت باقی رہ گئی ہے۔
پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے معروف وکیل اویس بابر نے کہا کہ وکلا پہ افسوس ہے کہ انہوں نے زیبا چودھری والے معاملے کو اس طرح نہیں اٹھایا جس طرح اٹھانا چاہئیے تھا۔ آج کے فیصلے سے لگتا ہے کہ عدالتیں نہیں چاہتیں کہ اس طرح کا فیصلہ دیں کہ کل کلاں پھر کوئی کہے کہ اس عدالت نے کسی خاص پارٹی کی حمایت میں فیصلے دیے ہیں۔ میرے خیال میں جج اب ماضی کی روش کو بدلنا چاہ رہے ہیں۔
پروگرام کے میزبان مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ کا امریکہ کا دورہ تب پلان ہوا تھا جب عمران خان وزیراعظم تھے۔ یہ دورہ تین دفعہ منسوخ ہوا ہے۔ ان کے ہمراہ ان کا ذاتی سٹاف گیا ہے اور یہ بات کہ نیا آنے والا آرمی چیف بھی ان کے ہمراہ ہے، یہ ساری افواہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں جنرل باجوہ ایکٹینشن نہیں لے رہے۔