جی کا جانا ٹہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا

جی کا جانا ٹہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا
جس 'جادو کی چھڑی' کے ذریعہ اس حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اسی کے ذریعہ اس کی واپسی کا سفر شروع ہو چکا ہے اور یہ عمل اتنا واضع ہے کہ ہر صاحب فہم کو نظر آ رہا ہے۔

2013کے انتخابات کے صرف ایک سال بعد جب عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو معاملہ فہم لوگوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ پاکستانی سیاست سے واقف معاملہ فہم لوگوں کو احساس ہو گیا تھا کہ نواز شریف اور ملک کے 'اصل' حکمرانوں کے درمیان خلیج وسیع ہو چکی ہے اور تبدیلی کا عمل شروع ہونے کو ہے۔

بعد ازاں پانامہ کے ڈرامے سے اقامے کا برآمد ہونا، سنگین جرم قرار پایا اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ملک کا مقبول ترین وزیر اعطم نا اہل قرار پایا۔ اس کے بعد جب ہمارے 'مہربانوں' نے دیکھا کہ نو منتخب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی اپنے پیشرو کے ہی نقش قدم پر گامزن ہیں تو مولوی خادم حیسن سے فیض آباد پر دھرنا دلوا کر جمہوری حکومت کو مزید کمزور کیا گیا۔ فیض آباد پر دھرنا مولوی خادم حیسن نے خود دیا تھا یا دلوایا گیا تھا یہ دھرنے میں شامل لوگوں میں رقوم کی تقسیم سے واضع ہو جاتا ہے۔

 عدالت عظمیٰ کے محترم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں فیض آباد دھرنے کی سرپرستی سے متعلق بہت واضع اشارہ کیا ہے جس کی وجہ سے وہ بھی آجکل زیر عتاب ہیں۔ 

سابق وزیر اعظم نواز شریف کو احتساب عدالت کے ذریعے دس سال قید اور جرمانے کی سزا دلوائی گئی لیکن بعد ازاں جج ارشد  ملک کی لیک ہونے والی ویڈیو نے مقدمہ اور سزا پر کئی سوالات کھڑے کر دیئے۔ جج ارشد ملک کے اقراری بیان پر عدالت عظمیٰ نے برہمی کا اظہار کیا۔ اسلام اباد ہائی کورٹ نے ارشد ملک کو تو معطل کر دیا لیکن انکی دی ہوئی سزا معطل نہیں کی۔

2018 کے انتخابات سے پہلے اور اسکے دوران ہمارے 'مہربانوں' نے جو گھناوؑنا کھیل کھیلا، ایک دنیا اس پر حیران رہ گئی۔ انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کی گرفتاری، انتخابات کے دن فارم 45 کی امیدواروں کو عدم فراہمی، تین دن تک نتائج کا آنا اور آزاد منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کو بھیڑ بکریوں کی طرح گھیر کر تحریک انصاف میں شامل کرانے کے عمل نے انتخابات کی ساکھ تباہ کر دی۔

ملک کی دونوں بڑی جماعتوں سے نالاں ہمارے 'مہربانوں' نے اپنا آخری کارڈ ایک نا تجربہ کار عمران خان کی صورت میں کھیل کر ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ شنید ہے کہ ہمارے 'مہربانوں' کے درمیان بھی اس مسئلہ پر دراڑ پڑ چکی ہے اور ایک بڑا حصہ اب سیاسی عمل سے مکمل کنارہ کشی کا حامی ہے جو کہ خوش آئند ہے۔

اب آتے ہیں سیاست میں نئی پیشرفت پر۔ چودھری برادران ہمیشہ سے ہمارے 'مہربانوں' کے منظور نظر رہے ہیں اور انکا موجودہ سیاسی ماحول میں متحرک ہونا بہت معنی خیز ہے۔ مولانا نے جب وزیر اعظم کے استعفیٰ سے کم کسی بات پر گفتگو کرنے سے انکار کیا تو چودھری برادران کو درمیان میں لایا گیا کیونکہ وہ تمام سیاستدانوں سے بہتر تعلقات کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔

چودھری شجاعت حسین کا ملک کی موجودہ صورتحال پر یہ کہنا اپنے اندر وسیع معنی رکھتا ہے کہ آئندہ تین ماہ بعد کوئی ملک کا وزیر اعظم بننے کیلئے تیار نہیں ہو گا۔ چودھری پرویز الہیٰ کا یہ کہنا کہ مولانا 'انڈر اسٹینڈنگ' کے تحت واپس گئے ہیں اور انکو دی گئی ضمانت 'امانت' ہے کو کیا معنی پہنائیں گے؟ قومی اسمبلی میں بھی حکومتی اتحادی ق لیگ، متحدہ قومی موومنٹ اور گرینڈ دیموکریٹک الائنس کا حکومت پر تنقید کرنے سے تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال بہت واضع ہے۔

سردار اختر مینگل کی حکومت کو دی گئی حتمی مہلت بھی دسمبر میں ختم ہو رہی ہے۔ میڈیا پر عائد کی گئی پابندیاں بہت حد تک ختم ہو چکی ہیں۔ بیساکھیوں پر کھڑی حکومت کا انہدام اب نوشتہ دیوار ہے۔

جی کا جانا ٹہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا۔

 

 

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔