'یہ لمس اور یہ احساس، شاید اب کبھی ہمارے نصیب میں نہ ہو'، کرونا کا شکار ہونے والے ڈاکٹر جوڑے کی آپبیتی

'یہ لمس اور یہ احساس، شاید اب کبھی ہمارے نصیب میں نہ ہو'، کرونا کا شکار ہونے والے ڈاکٹر جوڑے کی آپبیتی








کرونا وائرس نے حضرت انسان کو اس المیہ حیات سے دوچار کیا ہے کہ  وہ گھبرا کر رہ گیا ہے۔ کرونا ہوگا تو کیا ہوگا؟ کرونا کے بعد زندگی کیسی گزرتی ہے اور کیا کرونا وائرس سے میں مر جاؤں گا؟یہ سب وہ سوال ہیں کہ جو ہر کوئی آج کل سوچتا ہے.  اسی حوالے سے ایک ڈاکٹر نے اپنے قرنطینہ کے دنوں کا حال تحریر کیا ہے۔ اس میں انسان کا زندگی سے متعلق خوف بھی ہے اور غیر یقینی بھی، امید بھی اور دلاسے بھی۔۔  وہ کہتے ہیں کہ


پیشے کے اعتبار سے میں سرجن اور بیگم بھی ڈاکٹر ہیں۔ ہم کرونا سے آگاہ تھے اور تمام ضروری احتیاط ایک ماہ سے بروکار لا رہئے تھے۔ گاڑی میں سینیٹایزر، دروازے صاف، تھیٹر اور ہسپتال کے کپڑے ہسپتال۔ مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ اپنے مریض کیERCP کرتے اسکی کھانسی کے چھینٹے گردن پر محسوس ہوئے اور بس۔





























اسکے بعد اگلے 12 دن میں اور بیگم الگ الگ کمروں میں تپتی بھٹی کی مانند سلگتے رہئے، نہ کھانے کا من، اور جان لیوا نقاہت۔ ڈاکٹر ہونے کا نقصان یہ بھی ہے کہ آپ آنے والے حالات کو دیکھ سکتے ہیں، بچے 13 دن سیڑھیوں اور دروازوں کی درزوں سے گلے لگنے کی خواہش کا اظہار کرتے۔






اور ہم دونوں دل میں یہ جان چکے تھے، کہ شاید یہ لمس اور احساس، اب کبھی ہمارے نصیب میں نہ ہو۔ ساری ساری رات ، دیوار سے کان لگائے میں بیگم کی سانس کی آہٹ سنتا اور یقینا وہ بھی یہی کرتی تھی۔ بیماری بہت زیادہ سخت یا تلخ نہیں، اس سے جڑے لوازمات آپ کو دو ہفتے میں نچوڑ کر رکھ دیتے ہیں

اس تحریر کا مقصد، اس حقیقت کا ادراک دلانا ھے کہ آئسولیشن  یا کورنٹین چھٹیاں نہیں ۔ اسکے شدید اعصابی نتائج ہیں۔  آپکا کسی سے بات کا دل نہیں کرتا، اور ہر وقت ایک انجانا خوف آپ کے ذہن پر سوار رہتا ہے۔ اس دوران آپ  اپنے آپ کو Whattapp سے دور رکھیں ، کچھ ہلکی تفریح تلاش کریں















بیماری کے دوران وائرس کے بارے میں خبریں پڑھنے سے گریز کریں، میرے ٹویٹر پر میرے موڈ سوئنگز واضع نظر آتے ہیں۔ اور اس تلخ وقت میں آپکا بہترین ساتھی وہ ہے جو آپکو کلونجی اور غرارے کرنے کے مشورے نہ دے۔ احتیاط احتیاط احتیاط، کیونکہ ایک مرتبہ وائرس نئ حملہ کر دیا تو پھر صرف انتظار ہے