عمران خان کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ اس میں اب کوئی شک نہیں۔ بقول شخصے، وہ اقتدار سے نکالے جانے کے بعد اپنا عروج دیکھ چکے ہیں۔ اب یہاں قطعاً یہ معنی نہ لیے جائیں کہ وہ مزید مقبول نہیں ہو سکتے یا اگر الیکشن کروا دیے جائیں تو وزیر اعظم نہیں بن سکتے۔ ایسا بالکل ممکن ہے۔ لیکن پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ کسی نا کسی طرح عدالت اور زبردست عوامی مہم کے ساتھ ساتھ ن لیگ کی بے انتہا نااہلی کے ذریعے حاصل کرنے کے بعد وہ بڑی حد تک موجودہ سیٹ اپ میں اپنی انتہا کو چھو چکے ہیں۔ اس سے اوپر اب انہیں الیکشن ہی لے جا سکتا ہے۔ لیکن قرائن بتا رہے ہیں کہ الیکشن سے پہلے ہی ان کا مکو ٹھپنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔
قانون بڑا واضح ہے۔ مسلم لیگ ن کے ساتھ پچھلے قریب پانچ برس میں ہوئی زیادتیوں کے بعد اب یہ نہ تو کوئی رحم دکھانے کے موڈ میں ہے، نہ ہی کسی نیک چال چلن کی گارنٹی ماننے کو تیار ہے۔ ضمنی الیکشن میں اس کو ابھی جو مار پڑی ہے اس سے یہ حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار بھی اب نہیں رہی جو اب سے چند ہفتے قبل تک تھی۔ یہ اب ویسا ہی گندا کھیل کھیلنے کے لئے تیار دکھائی دیتی ہے جیسا اس کے ساتھ عمران خان کھیل چکے ہیں۔
دوسری جانب عمران خان بھی پہلی مرتبہ بیک فٹ پر نظر آتے ہیں۔ ان کا یہ بیانیہ کہ یہ صادق و امین ہیں اور باقی سب کرپٹ اور چور، اسے بری طرح سے دھچکا لگا ہے۔ جو کچھ بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے میں ہے، ریکارڈ پر موجود ہے۔ اس میں کہیں کوئی رعایت تو ممکن ہے کی گئی ہو لیکن زیادتی کوئی نہیں کی گئی۔ اس فیصلے میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ کمیشن نے کوئی عمران خان کو نااہل نہیں قرار دیا۔ کہیں ڈائیلاگ بازی کی کوشش نہیں کی۔ ذاتی آرا، خلیل جبران کی نثر، ماریو پوزو کے ناول سے دلائل مستعار نہیں لیے گئے، بلیک لا ڈکشنری کا سہارا نہیں لیا گیا۔ یہاں تک کہ فیصلہ سنانے کے بعد بھی اظہارِ وجوہ کا نوٹس کیا گیا ہے کہ آپ سامنے آ کر ان معاملات پر اپنا دفاع پیش کریں۔
نتیجہ یہ ہے کہ عمران خان صاحب کو خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ مثال کے طور پر ان کا یہ کہنا کہ یہ فنڈنگ غیر ملکیوں سے نہیں بلکہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے لی گئی ہے، ایک بھونڈا مذاق ہے جس پر ان کی اپنی جماعت کے سپورٹر بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ رومیتا شیٹی، اندرجیت دوسانجھ، شیخ النہیان اور بیری شنیپس یقیناً پاکستانی شہری نہیں۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ کمپنیز سے پیسے نہ لینے کا قانون 2017 میں بنا، یہ بھی درست نہیں ہے۔ کمپنیز سے امداد نہ لینے کا قانون پہلے سے موجود ہے۔ ایک جگہ اپنی تقریر میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ”ام حریم کو یہ تو پتہ چل گیا کہ عارف نقوی نے دبئی اور انگلینڈ سے 2 ملین ہمارے لئے اکٹھے کیے لیکن ام حریم کو یہ پتہ نہیں چلا کہ نواز شریف کو عارف نقوی نے 20 ملین دیے“۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے سامنے تھا ہی نہیں۔ الیکشن کمیشن کے سامنے پی ٹی آئی کی فنڈنگ کا کیس تھا اور یہ بحث لغو ہے کہ اگر ہمیں فنڈنگ ہوئی ہے تو ہمارے مخالف کو ہمارے سے بھی زیادہ ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی کو اپنا جواب دینا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ن لیگ کو عارف نقوی کی جانب سے پیسے دیے جانے کا معاملہ پہلی مرتبہ گذشتہ ہفتے فنانشل ٹائمز کی خبر میں سامنے آیا اور ن لیگ کی جانب سے اس کی تردید کر دی گئی جو اسی خبر میں رپورٹ بھی ہو گئی۔ جب شاہزیب خانزادہ کے ساتھ انٹرویو کے دوران اس خبر کے رپورٹر سائمن کلارک سے پوچھا گیا کہ کیا عارف نقوی کی جانب سے شریف برادران کو ایسی کوئی رقم دی گئی تھی تو انہوں نے جواب دیا کہ انہوں نے ایسے کوئی شواہد نہیں دیکھے۔
عمران خان کے خلاف فیصلہ فنانشل ٹائمز کی خبر میں سامنے آنے والے حقائق پر نہیں، اس سے کہیں پہلے جمع کروائی گئی دستاویزات کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ 'امِ حریم' ماضی میں اصلی اکاؤنٹ سے خان صاحب کے حق میں وتعز من تشاء وتذل من تشاء کے ٹوئیٹس کرتی رہی ہے، اس پر تو کبھی اعتراض نہیں اٹھایا موصوف نے۔
مختصر یہ کہ عمران خان جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سرے سے ہی جھوٹ ہے۔ انہیں اس فیصلے کو غلط ثابت کرنے کے لئے ایک بھی پوائنٹ میسر نہیں آ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ نیا دور کے پروگرام خبر سے آگے میں بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی اعزاز سید کہہ اٹھے کہ یہ فیصلہ پڑھنے کی چیز ہے، بہت طریقے سے لکھا گیا ہے۔ اسی پروگرام میں اعزاز سید نے کہا کہ عمران خان کے خلاف نااہلی کا کیس اب اپنے منطقی انجام کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ معاملات تیزی سے اس طرف بڑھ رہے ہیں۔
ماہرِ قانون سلمان اکرم راجہ نے سماء ٹی وی پر ندیم ملک کے شو میں بات کرتے ہوئے انتہائی معنی خیز بات کہی ہے۔ ان کا استدلال تھا کہ سیاسی جماعتیں، سیاسی لیڈران کو ٹیکنیکل بنیادوں پر ناک آؤٹ کرنے کی روش ختم ہونا چاہیے۔ تاہم، اگر وہ معیار لگایا گیا جو نواز شریف پر لگایا گیا تھا تو پھر تو آپ عمران خان صاحب کے خلاف 62(1)(f) کی ڈیکلیئریشن دے سکتے ہیں۔ اسی پروگرام میں جھنگ سے سینیئر سیاستدان شیخ وقاص اکرم کا بھی کہنا تھا کہ کسی سیاسی جماعت کو میدان سے باہر کرنے سے وہ باہر نہیں ہو جاتی۔ تاہم، اس حقیقت سے وہ بھی انکار نہیں کر سکے کہ قانون بڑا واضح ہے۔ اگر دو جمع دو چار والا حساب ہوا تو معاملہ خان صاحب کے حق میں جاتا دکھائی نہیں دیتا۔