Get Alerts

'محسن نقوی کو نگران وزیر اعظم کی پیش کش کی گئی'

مینڈیٹ نگران حکومت کے پاس نہیں ہوتا لیکن اگر آپ ایک عہدے پر ہیں اور مینڈیٹ نہیں ہے تو کیا لوگ ہسپتالوں میں مرتے رہیں اور اس مسئلے کا کوئی حل نہ نکالا جائے؟ جو کام سیاست دانوں کے کرنے کے تھے آج محسن نقوی کو کیوں کرنے پڑ رہے ہیں؟

'محسن نقوی کو نگران وزیر اعظم کی پیش کش کی گئی'

صوبہ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کو نگران وزیر اعظم کے عہدے کی پیش کش ہوئی تھی مگر انہوں نے معذرت کر لی۔ یہ دعویٰ کیا ہے رپورٹر حسن رضا نے۔

صحافی اور اینکر پرسن اجمل جامی نے اپنے حالیہ وی-لاگ میں رپورٹر حسن رضا کی جانب سے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی تعریف پر مبنی ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ان سے سوال کیا کہ 'شہباز سپیڈ' کا تو سن رکھا تھا، آپ نے محسن نقوی کو 'محسن سپیڈ' کا نام کیوں دیا؟ اس پر حسن رضا نے جواب دیا کہ میں نے تب بھی رپورٹنگ کی تھی جب شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے۔ پی ٹی آئی کے دور میں جب عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ ملی، تب بھی رپورٹنگ کرتا تھا۔ اب جب محسن نقوی نگران وزیر اعلیٰ ہیں تو ان کے ساتھ بھی تمام جگہوں پر جاتا ہوں اور رپورٹ کرتا ہوں۔ بے شک محسن نقوی نگران سیٹ اپ میں وزیر اعلیٰ ہیں مگر اس دوران انہوں نے انتھک محنت کے ذریعے شاندار خدمات سرانجام دی ہیں۔ نگران سیٹ اپ مدت مکمل ہو جانے کے بعد بھی تب تک کام کرتا رہے گا جب تک ان کی ذمہ داری ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب ہم نے سرکاری ہسپتالوں کا دورہ کیا تو ان کے حالات بہت برے تھے۔ رپورٹر کی حیثیت سے میں بھی اس مسئلے کو گاہے بگاہے رپورٹ کرتا رہا ہوں۔ تھانوں میں گئے تو وہاں بھی انتہائی برے حالات ہیں۔ کوئی بھی سیکٹر ایسا نہیں جس میں سابقہ حکومت نے کوئی کام کیا ہو یا اسے بہتر بنایا ہو۔ تعلیم میں بہتری آئی ہو یا ہیلتھ سیکٹر میں ترقی ہوئی ہو، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اب نگران وزیر اعلیٰ ان جگہوں پہ جا رہے ہیں اور اس سسٹم کی بہتری کے لیے پینل تشکیل دے رہے ہیں۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا کہ پینل میں صرف بیوروکریٹس ہوں، یا سیاست دان ہوں۔ بلکہ وہ دیگر متعلقہ افراد سے اس بارے میں بات کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس کا کیا حل ہو گا۔

نگران حکومت کے مینڈیٹ کے حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا تو حسن رضا نے کہا کہ مینڈیٹ نگران حکومت کے پاس نہیں ہوتا لیکن اگر آپ ایک عہدے پر ہیں اور مینڈیٹ نہیں ہے تو کیا لوگ ہسپتالوں میں مرتے رہیں اور اس مسئلے کا کوئی حل نہ نکالا جائے؟ جو کام سیاست دانوں کے کرنے کے تھے آج محسن نقوی کو کیوں کرنے پڑ رہے ہیں؟ اس حوالے سے چیف الیکشن کمشنر سے بھی ایک ملاقات میں سوال کیا تھا لیکن انہوں نے بھی یہی جواب دیا تھا کہ جب حالات بگڑنے لگیں تو کچھ معاملات میں نگران حکومت کو 'ٹاسک' دیے جاتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ محسن نقوی کا بھی یہی کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن جیسے ہدایات دے گا وہ ویسے ہی کام کریں گے۔

جب سوال کیا گیا کہ سنا ہے ان کے شاندار کام سے متاثر ہو کر انہیں نگران وزیر اعظم بنانے کی تجویز بھی زیرغور تھی، اس پر حسن رضا نے جواب دیا کہ انہیں نگران وزیر اعظم کی پیش کش ہوئی تھی لیکن میری اطلاعات کے مطابق انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ جہاں سے آفر ہونی چاہئیے تھی، وہیں سے کی گئی تھی۔

نگران حکومت کی مدت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اجمل جامی نے سوال کیا کہ دیکھنے سے ایسا نہیں لگتا کہ نگران حکومت کے ذہن میں یہ ہو کہ حکومت 3 یا 6 ماہ کی ہے بلکہ ایک سال یا ڈیڑھ سال کی حکومت ہونے جیسا تاثر ہے۔ اس پر حسن رضا نے کہا کہ حکومت جب آئی تھی تب بھی یہی کہا تھا کہ جس طریقے سے منصوبہ سازی ہو رہی تھی وہ 'لانگ ٹرم' کے لیے ہی لگ رہی تھی۔ اب بھی ایسا لگتا ہے کہ یہ حکومت کم از کم مزید 6 ماہ تک جاری رہے گی۔ عام انتخابات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ مجھے ابھی انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے۔