ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے ایوی ایشن کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشاہد اللہ خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پی آئی اے ملازمین کی جعلی ڈگریوں کے حوالے سے جائزہ کمیٹی کی پروگریس رپورٹ اور ملوث افسران کے خلاف کارروائی، سینیٹر بہرہ مند خان تنگی کے 13نومبر 2018کو اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ائیر پورٹ منصوبے میں کی گئی کرپشن، ثناء وحید سینئر آرٹی او، فرزانہ یاسمین اور نوشابہ طلعت کی حراساں کئے جانے کے معاملے کے علاوہ 17اکتوبر 2019کو نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر اے ایس ایف ملازم کے غلط رویہ کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ پی آئی اے ملازمین کی جعلی ڈگریوں کے معاملے کے حوالے سے ادارے کو یکساں پالیسی اختیار کرنی چاہئے اور جعلی ڈگری کی بنیاد پر اگرشروع میں نہیں نکالا گیا تو 25سال بعد ملازمین کو نکالنا ناانصافی ہے۔
جعلی ڈگری والوں کے خلاف 8ایکشن ہو سکتے ہیں نوکری سے نکالنا آخری آپشن ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملازمین کا سالانہ اضافہ (انکریمنٹ)، پچھلے گریڈ میں بھیجنا و دیگر آپشن بھی ہیں جو اختیار کیئے جا سکتے ہیں۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ 2006میں پی آئی اے بورڈ نے اپمپلائی لیڈر شپ ٹیم (ای ایل ٹی)تشکیل دی تھی جنہوں نے ملازمین کی جعلی ڈگری چیک کرنی تھی تب سے جعلی ڈگریوں والوں کے خلاف کام کیا جا رہا ہے۔
تقرری کے وقت ایک فارم دیا جاتا ہے جس کو ملازم خود اپنے ہاتھ سے بھرتا ہے کہ جعلی دستاویزات فراہم کرنے پر نوکری سے فارغ کر دیا جائے گا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ابتک 647 جعلی ڈگری کے کیسز سامنے آئے ہیں اور 206 لوگوں نے عدالت میں کیس کئے ہیں اور صرف تین سے چار لوگوں کو ریلیف ملا ہے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ ادارے کو ملازمین کے خلاف نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے یکساں ایکشن لینا چاہئے، کسی کے ساتھ امتیازی سلوک اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ سینیٹرز نعمان وزیر خٹک اور فیصل جاوید نے کہا کہ ادارے کو عدالت کے فیصلے کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔
نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ائیر پورٹ منصوبے میں کرپشن کے حوالے سے سینیٹر بہرہ مند خان تنگی نے کہا کہ میرے سوال کو ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے گزشتہ اجلاس میں کمیٹی نے واضح ہدایت کی تھی کہ جے آئی ٹی بنا کر رپورٹ فراہم کی جائے مگر ابھی تک اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ پارلیمان کی کمیٹیوں کو پوری تیاری کے ساتھ افسران بریف کیا کریں جس سے مسائل جلدی حل ہو جاتے ہیں۔ سینیٹر مصطفی کھوکھر نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں وزیر نے کہا تھا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر کابینہ کی ایک ذیلی کمیٹی بنائی ہے جس نے رپورٹ تیار کرنی تھی۔ سیکرٹری ایوی ایشن نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں وزیر سے اس حوالے سے بات کر کے کمیٹی کو آگاہ کر دیا جائے گا۔
ثناء وحید کو حراساں کیا جانے کے معاملے کے حوالے سے چیئرمین کمیٹی سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ ثناء وحید اور مسٹر کامران انجم، اسپیشل اسسٹنٹ سی ای او کمیٹی کو تفصیلات فراہم کریں گے مگر اُن کی عدم شرکت کی وجہ سے آئندہ اجلاس تک معاملہ مؤخر کرتے ہیں کمیٹی نے انھیں نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا اگر آئندہ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تو ایکشن لیا جائے گا۔
سمبارا ہوٹل لاڑکانہ کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ 1974ء میں سندھ حکومت نے لاڑکانہ میں 5 ایکڑ زمین وزیراعظم کی ہدایت پر پی آئی اے کو تحفے میں دی۔
پی آئی اے نے سمبارا ہوٹل تعمیر کیا جس کے دو بلاک میں 48 کمرے ہیں پی آئی اے نے بورڈ کی منظوری کے بعد 1990میں یہ ہوٹل سندھ حکومت کو تحفے میں دیا پی آئی اے نے اس کے دو بڑے ہال اپنے قبضے میں رکھے اور 2000ء میں پی آئی اے نے ہوٹل واپسی کیلئے چیف سیکرٹری سندھ سے معاملہ اٹھایا۔ کمیٹی نے زمین کے کاغذات کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے معاملہ آئند ہ اجلاس تک موخر کر دیا۔
سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ مختلف ائیر پورٹس کو بند کیا جا رہا ہے اور جن کو بند کیا گیا ہے اس سے کتنا نقصان ہو رہا ہے آئندہ اجلاس میں اس کی تفصیلات کمیٹی کو فراہم کی جائیں۔سینیٹر سجاد حسین طوری نے کہا کہ پارچنار میں ائیر پورٹ ہے جو بند پڑا ہے فنگشنل کرنے پر مختلف کمپنیاں سروس شروع کر سکتی ہیں۔
قائمہ کمیٹی کو پی آئی اے کی مختلف ممالک میں پراپرٹیز کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پی آئی اے کی نیویارک میں پراپرٹی انتہائی اہمیت کی حامل ہے جہاں ہوٹل کے 400کمرے ہیں اور بہت زیادہ رش ہوتا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پراپرٹیز کے حوالے سے کیبنٹ نے فیصلہ کرنا ہے کیبنٹ میٹنگ کے آج کے ایجنڈا میں شامل ہے جو فیصلہ ہو گا کمیٹی کو آگاہ کر دیا جا ئے گا۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پی آئی اے لمیٹڈ کمپنی ہے اس کا بورڈ فیصلہ کر سکتا ہے حکومت فیصلہ نہیں کر سکتی۔
پی آئی اے خواتین ملازمین کے بڑھتے ہوئے حراساں کئے جانے واقعات پر کمیٹی نے تشویش کا اظہار کیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ فرزانہ اور نوشابہ نے بھی پی آئی اے افسران کی طرف سے حراساں کئے جانے کی شکایات کی ہیں اور کامران انجم کے حوالے سے دو حراساں کرنے کی شکایات آئی ہیں۔
ادارے کو اس کے خلاف ایکشن لینا چاہئے۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ ایچ آر کی ذمہ داری ہے کہ ملازمین کو بہترماحول فراہم کیا جائے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ حراساں کے معاملات وفاقی محتسب کے پاس بھی ہیں اور خواتین تحفظ کمیٹی کے پاس بھی ہیں جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پی آئی اے رولز میں جب ایکشن تجویز ہے تو ادارہ عمل کیوں نہیں کرتا بروقت ایکشن لینے سے ایسے واقعات کم ہو سکتے ہیں۔
کمیٹی کو نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر اے ایس ایف ملازم کے غلط رویہ کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ خراب موسم کی وجہ سے دیگر شہروں کی دو فلائٹس کو اسلام آباد ائیر پورٹس پر لایا گیا تھا رش بڑھ گیا تھا اور مسافروں نے احتجاج شروع کر دیا تھا۔
ذمہ داری پی آئی اے اور سی اے اے کی بنتی تھی۔ مسافروں نے اے ایس ایف ملازم کو دھکے دیئے تو اُس نے بدتمیزی کی۔ اُس لڑکے کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کورٹ مارشل کیا جائے گا اور دیگر ملوث لوگوں کے خلاف انکوائری اور ایکشن لیا جا رہا ہے۔