واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کے پاس اپنے کچھ ملازمین کو کم از کم چار ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے فنڈز ختم ہو گئے جبکہ پاکستانی سفیر کی فعال مصروفیات نے ایبمیسی کو شکار شدید بحران سے بچا لیا ہے۔
جیو اور دی نیوز میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستانی سفارت خانے کے مقامی طور پر بھرتی کیے گئے کنٹریکٹ ملازمین میں سے کم از کم پانچ کو اگست 2021 سے اپنی ماہانہ تنخواہ کی ادائیگی میں تاخیر اور عدم ادائیگی کا سامنا کرنا پڑا۔
واشنگٹن میں پاکستان سفارتخانے کے عملے میں سے پانچ افراد فنڈز کی کمی کی وجہ سے متاثر ہوئے جبکہ عملے کا ایک فرد جو گزشتہ دس سالوں سے سفارت خانے کے ساتھ کام کر رہا تھا، تنخواہ میں تاخیر اور عدم ادائیگی کی وجہ سے ستمبر میں مستعفی ہو گیا تھا۔
اس مقامی عملے کو سفارت خانے نے سالانہ کنٹریکٹ کی بنیاد پر رکھا ہوا تھا اور انہوں نے پاکستان مشن کے لیے کم سے کم تنخواہوں پر کام کیا، جو کہ 2,000 سے 2,500 ڈالر فی شخص ماہانہ ہے۔
مقامی بھرتیوں پر بھرتی ہونے والے چاہے وہ مستقل ہوں یا کنٹریکٹ، انہیں وہ مراعات حاصل نہیں ہوتی جن سے دفتر خارجہ کے ملازمین لطف اندوز ہوتے ہیں،اس مقامی عملے کو عام طور پر ‘قونصلر سیکشن’ میں مدد کے لیے رکھا جاتا ہے جو تارکین وطن کو ویزا، پاسپورٹ، نوٹرائزیشن اور دیگر قونصلر خدمات فراہم کرتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ایسے عملے کو پاکستان کمیونٹی ویلفیئر (PCW) فنڈ سے تنخواہ کی ادائیگی کی جاتی ہے، جو مقامی طور پر سروسز فیس کے ذریعے پیدا ہوتی ہے اور پھر مقامی طور پر ہی تقسیم کیا جاتا ہے۔
صورتحال سے واقف ذرائع کا کہنا ہے کہ پی سی ڈبلیو فنڈ گزشتہ سال ختم ہو گیا تھا کیونکہ یہ رقم کووڈ-19 کی وبا کے بعد وینٹی لیٹرز اور دیگر طبی آلات کی خریداری کے لیے دے دی گئی تھی۔
ذرائع نے بتایا کہ سفارت خانے نے فنڈز کو برقرار رکھنے کے لیے کوشش کی جس سے تنخواہوں کی ادائیگی متاثر ہوئی۔ ذرائع نے مزید کہا کہ سفارت خانے کو مقامی طور پر رکھے گئے عملے کی ماہانہ تنخواہوں کو برقرار رکھنے کے لیے دوسرے اکاؤنٹ ہیڈز سے رقم لینا پڑی۔ دوسرا عنصر جو اس میں کھیلا گیا وہ یہ تھا کہ اسلام آباد نے اپنی ویزا سروسز کو ڈیجیٹلائز کر دیا ہے جو اب نادرا (نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) کے ساتھ مل کر سنبھالی جاتی ہیں۔
دی نیوز کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تنخواہ حاصل نہ کرنے والے عملے نے اکتوبر میں سفیر کو خط لکھ کر اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد کرنے پر زور دیا اور سفیر نے بار بار اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ساتھ یہ مسئلہ اٹھایا اور وہ گزشتہ ہفتے ہی تمام تنخواہیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
سفارت خانے کے ترجمان نے دی نیوز کو بتایا کہ “فی الحال سفارت خانے کے عملے کو تنخواہ سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ “جبکہ ہم ہمیشہ اپنے عملے کو تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ایسی مثالیں موجود ہیں جب پاکستان سے ترسیلات زر کی پروسیسنگ میں معمول سے زیادہ وقت اور بجٹ کی بعض رکاوٹوں کی وجہ سے ملازمین کو تنخواہوں کی تقسیم میں تاخیر ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روزسربیا میں پاکستان کی ایمبسی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک پیغام شیئر کیا گیا ہے جس میں وزیراعظم عمران خان کو ٹیگ کرتے ہوئے سوال کیا گیا ہے کہ کب تک ہم سرکاری اہلکار خاموش رہیں گے اور آپ کے لیے کام کرتے رہیں گے ؟
پیغام میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 3 ماہ سے تنخواہ نہیں دی گئی اور فیسوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ہمارے بچوں کو اسکول سے نکال دیا گیا ہے۔ کیا یہ نیاپاکستان ہے؟ تاہم بعد میں دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ سربیا میں ایمبیسی کا ٹوئٹر اکاؤنٹ ہیک ہوگیا تھا۔