Get Alerts

بلوچستان؛ اقلیتوں کو اپنے نمائندے براہ راست منتخب کرنے کا حق دیا جائے

بلوچستان کے 65 رکنی ایوان میں اقلیتوں کی 3 مخصوص نشستیں ہیں۔ یہ نشستیں سیاسی پارٹیوں کو جنرل الیکشن میں 5 فیصد سے زیادہ نشستیں جیتنے کے بعد الاٹ ہوتی ہیں اور سیاسی پارٹیاں اپنے منظور نظر افراد کو اقلیتوں کی نشستوں پر ٹکٹ دیتی ہیں۔ اس میں بلوچستان میں بسنے والی اقلیتوں کی رائے شامل نہیں ہوتی۔

بلوچستان؛ اقلیتوں کو اپنے نمائندے براہ راست منتخب کرنے کا حق دیا جائے

حالیہ بلدیاتی الیکشن میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر کونسلر منتخب ہونے والے سنیل پرکاش کو گلہ ہے کہ اب تک گوادر میں ہندو کمیونٹی کے لئے کوئی شمشان گھاٹ نہیں بنایا گیا کہ جہاں ہم اپنے مُردوں کو جلا سکیں۔ ان کے مطابق ہمیں مُردوں کو جلانے کے بجائے دفن کرنا پڑتا ہے۔

گوادر کی تحصیل پسنی میں ہندو کمیونٹی کے لئے شہر سے باہر ایک شمشان گھاٹ موجود ہے مگر چاردیواری اور دیگر سہولیات سے محروم ہے۔ پسنی میں بھی اس شمشان گھاٹ کے اندر سات قبریں موجود ہیں۔ کچا اور دشوار گزار راستہ ہونے کی وجہ سے بارشوں کے بعد ایک ہفتے سے دو ہفتے تک یہ راستہ بند ہوتا ہے۔

دھیمے لہجے میں بولتے ہوئے پرکاش کا کہنا تھا کہ ہمارے نام پر فنڈز بھی ریلیز ہوئے تھے مگر ہم اس سے استفادہ نہ کر سکے۔ گوادر میں ہندو کمیونٹی کے ایک مندر کے احاطے میں ہم سے محو گفتگو پرکاش کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے سنتوش کمار نے مایوسی کے عالم میں کہا کہ ہر پانچ سال بعد الیکشن کے موقع پر انتخابی امیدوار ہم سے ووٹ مانگنے آتے ہیں اور جیتنے کے بعد غائب ہوکر وعدے وفا نہیں کرتے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ بطور اقلیتی کونسلر آپ نے اپنی کمیونٹی کے لوگوں کی بہتری کے لئے کیا کیا تو وہ فرط جذبات میں بولے کہ ہمیں پہلی بار احساس ہوا کہ ہمارے حقوق کیا ہیں اور میں نے اپنی کمیونٹی کا ایک دیرینہ مسئلہ وائس چیئرمین ماجد جوہر کے تعاون سے حل کروایا۔ مسئلہ یہ تھا کہ 2007 کے بعد گوادر میں ہندو کمیونٹی کو لوکل سرٹیفکیٹ کا اجرا نہیں کیا گیا تھا۔

22 سالہ نوجوان سنیل کمار جو کہ کم پڑھا لکھا ہے، وہ بھی گفتگو میں شامل ہوا اور کہنے لگا کہ 'حق دو تحریک' نے ہمیں سیاسی شعور دیا اور اب ہمیں پتہ ہے کہ ہمارے نام پر ملنے والے فنڈز ہم پر خرچ نہیں ہوتے ہیں۔

یاد رہے نومبر 2021 میں جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکرٹری مولانا ہدایت الرحمٰن کی قیادت میں 'حق دو تحریک' وجود میں لائی گئی تھی جس کا مقصد گوادر کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھانا ہے۔ اسی سال 'حق دو تحریک' کی جانب سے وائی چوک گوادر میں 30 روز کا دھرنا دیا گیا تھا۔ اب یہ تحریک باقاعدہ ایک سیاسی پارٹی بن چکی ہے اور حالیہ بلدیاتی الیکشن کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ایک سیاسی پارٹی کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔

سنتوش کمار کے مطابق جام کمال خان کے دور میں اقلیتی ایم پی اے نے اپنے فنڈز سے گوادر میں ہندو کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لئے 5 کروڑ کے فنڈز ریلیز کیے تھے۔

رہائشی کالونی

سنیل پرکاش کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ وہ رک رک کر بول رہا تھا کہ بلدیہ کالونی کے جس کمپاؤنڈ میں ہم رہائش پذیر ہیں وہ ایک تنگ علاقہ ہے اور ہم مزید تعمیرات نہیں کر سکتے۔ 10 سے 15 گھروں پر مشتمل بلدیہ کالونی بلدیہ کی ملکیت ہے۔ ہمیں شہر کے قریب ایک ایسی کالونی بنا کر دی جائے کہ ہم آرام کے ساتھ رہ سکیں۔

اس حوالے سے میونسپل کمیٹی گوادر کے وائس چیئرمین ماجد جوہر نے کہا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے گوادر میں ماہی گیری کالونی بنانے کا اعلان کیا گیا تھا تو ہم متعلقہ اداروں سے رابطے میں ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ اس کالونی میں ہندو کمیونٹی کے لئے ایک بلاک مختص کر سکیں۔

گوادر بلدیہ کے احاطے میں بلدیہ کالونی میں ہندو کمیونٹی کے لوگ رہائش پذیر ہیں۔ اسی کالونی میں ہندو کمیونٹی کا ایک مندر بھی موجود ہے اور مندر کو تزئین و آرائش کر کے خوب صورت بنایا گیا۔ مندر کے آس پاس ہندو کمیونٹی کے بچے کھیل کود میں مصروف تھے۔ وہ ہمیں مندر میں دیکھ کر متوجہ ہوئے۔ مستقبل کے سہانے خواب آنکھوں میں سجائے چوتھی جماعت کا طالب علم اپنے مسقبل سے بے خبر اور ووٹ کی اہمیت سے لاعلم ہمیں غور سے دیکھتا رہا۔

بلدیہ کالونی کے احاطے میں ایک خالی چاردیواری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میونسپل کمیٹی گوادر کے وائس چیئرمین نے کہا کہ اس چاردیواری کو مرمت کر کے ہندو کمیونٹی کے لئے ایک کمیونٹی ہال بنایا جا رہا ہے تا کہ ہندو کمیونٹی کے لوگ خوشی اور غم کے موقع پر اکٹھے ہو سکیں۔

ضلع گوادر میں ہندوؤں کے مندر

ہندو اقلیتی کونسلر پرکاش کے مطابق گوادر شہر میں ہندو کمیونٹی کے 6 مندر موجود تھے جن میں سے کچھ تو کھنڈرات میں بدل کر آثار قدیمہ کا حصہ بن گئے۔ اس وقت یہاں صرف 2 مندر موجود ہیں جہاں ہندو کمیونٹی کے لوگ پوجا کرتے ہیں۔ رام پیر نامی مندر بلدیہ کالونی کے احاطے میں ہندو آبادی کے اندر موجود ہے۔

ہندو کب سے گوادر میں آباد ہیں؟

ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مطابق قیام پاکستان سے ہم گوادر اور اس کے گرد و نواح میں مقیم ہیں اور اس وقت یہ ہماری تیسری اور چوتھی نسل ہے۔

محقق شبیر رند اپنی کتاب 'اوراقِ گوادر' میں 1928 کی برٹش رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ گوادر قصبے کی آبادی 10 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ ان میں 100 سندھی ہندو اور 400 نفوس اسماعیلی ہیں۔ یہ لوگ بنیادی طور پر بھارت کے شہر بمبئی اور حیدر آباد سے 1830 میں ہجرت کر کے گوادر آئے تھے۔

بلدیہ گوادر کی جانب سے کہا گیا کہ اس وقت جو ہندو آبادی ظہور شاہ وارڈ بلدیہ کالونی میں رہائش پذیر ہیں وہ 1950 کی دہائی سے یہاں آباد ہے۔ جبکہ قیام پاکستان کے بعد بہت سے ہندو اور اسماعیلی برادری کے لوگ گوادر سے ہجرت کر کے چلے گئے ہیں۔

لوکل باڈیز ایکٹ 2013 کے تحت کوٹہ

لوکل باڈیز الیکشن ایکٹ 2013 کے تحت اقلیتی برادری کے لئے 5 فیصد کوٹہ مختص ہے جبکہ ضلع گوادر کے بہت سے دیہی اور شہری علاقوں میں اقلیتی امیدوار نہ ہونے کی وجہ سے یہ کوٹہ خالی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے مطابق ان علاقوں میں کوئی اقلیتی امیدوار موجود نہیں تھا۔

ضلع بھر میں رجسٹرڈ اقلیتی ووٹرز

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق 30 جون 2022 تک ضلع گوادر میں اقلیتی کمیونٹی کے رجسٹرڈ 198 ووٹوں میں سے 100 مرد اور 98 خواتین ہیں جبکہ تحصیل جیوانی میں صرف 3 مرد رجسٹرڈ ووٹرز جبکہ تحصیل اورماڑہ میں ایک مرد اور 3 خواتین ووٹرز ہیں۔ جبکہ حالیہ بلدیاتی الیکشن میں صرف ظہور شاہ ہاشمی وارڈ میں 90 رجسٹرڈ ووٹر تھے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شہری نادرا سے شناختی کارڈ بنواتا ہے تو اس کا ووٹ رجسٹرڈ ہو جاتا ہے۔

چیئرمین بلدیہ گوادر شریف میاں داد نے بتایا کہ گوادر شہر میں ہندو کمیونٹی کی آبادی 300 کے قریب ہو گی جبکہ مختلف اعداد و شمار کے مطابق ضلع گوادر میں ہندوؤں کی آبادی 400 سے 500 کے قریب ہے۔

الیکشن کمیشن گوادر آفس کی جانب سے کہا گیا کہ ضلع گوادر میں ووٹرز ٹرن آؤٹ بڑھانے سمیت ان کو آگہی فراہم کرنے کے لئے ڈسٹرکٹ ووٹر ایجوکیشن کمیٹی ہر ماہ ووٹرز کو آگہی فراہم کرتی ہے اور ٹرن آؤٹ بڑھانے کے لئے سیاسی و سماجی پارٹیوں کے ساتھ اجلاس کرتی ہے۔ ان کے مطابق ہم براہ راست کسی کمیونٹی کے لئے نہیں بلکہ ضلع بھر میں رجسٹرڈ تمام ووٹرز کے لئے پروگرام کرتے ہیں۔

سنتوش کمار کے مطابق ہم ڈسٹرکٹ ووٹر ایجوکیشن کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں۔

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے مرکزی رہنما کہدہ علی نے بتایا کہ اقلیتوں کے حوالے سے ہم الیکشن کمیشن کے رولز کو فالو کر رہے ہیں اور ان کو نمائندگی اور برابری کی حیثیت دینے پر ہماری پارٹی یقین رکھتی ہے۔

گوادر سے ابھرنے والی تحریک حق دو کے رہنما اور وائس چیئرمین میونسپل کمیٹی ماجد جوہر نے بتایا کہ بلدیہ میں دو اقلیتی کونسلر ہیں۔ ان کے مطابق گوادر میں ہندو کمیونٹی کے لوگ الیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور یہ زیادہ تر میرے حلقہ انتخاب ظہور شاہ ہاشمی وارڈ میں رہائش پذیر ہیں۔ حالیہ بلدیاتی الیکشن میں 90 کے قریب رجسٹرڈ اقلیتی ووٹر تھے۔

چیئرمین بلدیہ گوادر شریف میاں داد نے بتایا کہ ہم اس وقت گوادر میں ہندو اقلیتوں کی ازسر نو رجسٹریشن کر رہے ہیں اور جو اقلیت کئی دہائیوں سے گوادر میں مقیم ہے اور اگر ان کا لوکل سرٹیفکیٹ نہیں بنا ہے تو ان کو لوکل سرٹیفکیٹ بنا کر دیں گے۔

میونسپل کمیٹی کے وائس چیئرمین ماجد جوہر نے بتایا کہ حق دو تحریک کے وجود میں آنے سے پہلے گوادر پورٹ کی جانب سے 4 ہزار سولر تقسیم کیے گئے تھے۔ گوادر کی تمام سیاسی پارٹیوں اور ماہی گیروں کو ایک کوٹہ کے تحت ملے تھے مگر گوادر کی اقلیتی برادری کو کچھ نہیں ملا۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ حال ہی میں جب حق دو تحریک بلدیہ گوادر میں برسر اقتدار آئی تھی تو ہم نے گوادر پورٹ اور پاک آرمی کے تعاون سے گوادر میں رہائش پذیر تمام ہندو کمیونٹی کو سولر پینل تقسیم کیے۔ کیونکہ گوادر میں اقلیتی کمیونٹی کے لوگ پہلے سے نظر انداز کیے گئے تھے۔

گوادر میں اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ اس بات کا خود اعتراف کرتے ہیں کہ حق دو تحریک کے بلدیاتی نمائندے کمیونٹی کی بہتری کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔

بلوچستان کے 65 رکنی ایوان میں اقلیتوں کی 3 مخصوص نشستیں ہیں۔ یہ نشستیں سیاسی پارٹیوں کو جنرل الیکشن میں 5 فیصد سے زیادہ نشستیں جیتنے کے بعد الاٹ ہوتی ہیں اور سیاسی پارٹیاں اپنے منظور نظر افراد کو اقلیتوں کی نشستوں پر ٹکٹ دیتی ہیں۔ اس میں بلوچستان میں بسنے والی اقلیتوں کی رائے شامل نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے سنتوش کمار کا کہنا ہے کہ ہمیں مخصوص نشستوں پر بذریعہ ووٹ اختیار دیا جائے کہ ہم اپنے نمائندے خود منتخب کریں تا کہ ہمارے ووٹوں سے منتخب نمائندے ہمیں جواب دہ ہو سکیں۔

2018 کے الیکشن کے بعد مخصوص نشستوں پر خلیل فرانسس بلوچستان عوامی پارٹی، شام کمار متحدہ مجلس عمل اور ططس جانسن بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے ٹکٹ پر رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے تھے جبکہ خلیل فرانسس 2013 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے تھے۔

تین مرتبہ اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والی کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی آسیہ ناصر نے ٹیلی فون پر بتایا کہ اقلیتی افراد بھی اس ملک کے شہری ہیں اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 اے کے تحت ہر شہری کو برابر حقوق حاصل ہیں۔ ان کے بقول سیاسی پارٹیاں اگر چاہیں تو مضبوط حلقوں میں اقلیتوں کو ٹکٹ دے کر پارلیمنٹ تک پہنچا سکتی ہیں کیونکہ اقلیت کمزور طبقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اپنی مدد آپ کے تحت الیکشن اس لئے نہیں لڑ سکتے کیونکہ الیکشن میں خرچے بہت ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آبادی کے تناسب سے اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں اضافہ کیا جائے کیونکہ موجودہ آبادی کے تناسب سے ہماری نشستیں کم ہیں۔ بدقسمتی سے 2017 کی مردم شماری میں پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی کم کر دی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ اقلیتوں کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ اپنی کمیونٹی کی پارلیمنٹ میں بہتر طریقے سے نمائندگی کر سکیں۔ وہ سیاسی پارٹیوں سے مطالبہ کرتی ہیں کہ اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر سیاسی کارکنوں اور سیاسی وژن رکھنے والے لوگوں کو ٹکٹ دیا جائے کیونکہ سیاسی لوگ بہتر طریقے سے اپنے لوگوں کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔

سنیل کمار کے مطابق سیاسی پارٹیوں کے نامزد لوگ چونکہ براہ راست منتخب نہیں ہوتے اس لیے وہ اقلیتوں سے زیادہ سیاسی پارٹیوں کے وفادار ہوتے ہیں۔ اس کے باعث ہمارے مسائل حل نہیں ہوتے۔

سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال نے بتایا کہ میں جنرل نشستوں پر اقلیتی برادری کے شہریوں کے الیکشن لڑنے کی حمایت کرتی ہوں کیونکہ جنرل نشستوں پر الیکشن جیت کر اپنے لوگوں کی خدمت اور دیکھ بھال کی طاقت ہوگ ی۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں ہم اور اقلیتیں ہمیشہ ہم آہنگی سے رہتے ہیں اور اقلیتیں ہمارے سماج کا اہم حصہ ہونے کی وجہ سے سماج کی فلاح و بہبود کے لئے اہم رول ادا کر رہی ہیں۔ ان کو دہرے ووٹ کا حق دے کر مزید باوقار بنایا جا سکتا ہے۔

سماجی تنظیم جیوز کے عارف نور کے مطابق اقلیتی کمیونٹی کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار دے کر ان کو با اختیار بنایا جا سکتا ہے۔ عارف نور کہتے ہیں کہ ہندوؤں کی نمائندگی میں باہر سے لوگ لائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ کمیونٹی سے زیادہ پارٹیوں کے وفادار ہوتے ہیں۔

اقلیتوں پر کتاب لکھنے والے مصنف اعظم معراج اپنی کتاب 'تحریک شناخت کے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کا جائزہ۔ یہ کیوں ضروری ہے اور کیسے ممکن ہے؟' میں لکھتے ہیں کہ غیر مسلم پاکستانیوں کو مکمل پاکستانی شناخت اور اپنی اپنی مذہبی شناخت کی نمائندگی بھی ایوانوں میں دینے کا ایک طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ان کو دہرے ووٹ کا حق دیا جائے۔ ان کے مطابق اقلیتوں کے نام پر جو لوگ ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں ان کو منتخب کرنے کا اختیار اقلیتوں کو دیا جائے۔

نیشنل پارٹی کے رہنما اور وکیل گہرام گچکی نے بتایا کہ ملک کے دیگر شہریوں کی طرح سیاسی پارٹیوں کو چاہئیے کہ اقلیتی ارکان کو بھی جنرل نشستوں پر ٹکٹ دیا جائے اور اقلیتوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ براہ راست ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کریں تاکہ سیاسی پارٹیوں سے زیادہ اپنی کمیونٹی کے وفادار ہو سکیں۔