مذہبی اقلیتوں کی جانب سے قانون ساز اسمبلیوں میں غیر مسلم نشستوں کی تعداد میں اضافے کے مطالبے پر حکومتی اداروں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کی توجہ مرکوز کروائی جاتی رہی ہے۔ اس سلسلے میں عام انتخابات کے بعد نئی قانون ساز اسمبلی میں مذہبی اقلیتوں کی نشستوں کی تعداد کے حوالے سے متعدد بار بل بھی پیش کیے گئے۔ 2013 میں ڈاکٹر رمیش کمار نے آئین میں ترمیم کا بل پیش کیا جس میں آبادی کے تناسب سے اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا۔ بعد ازاں اس بل کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ آئین پاکستان کے مطابق تمام اسمبلیوں میں اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں اٖضافہ ان کی آبادی کے تناسب کو دیکھ کر کیا جائے گا۔ ادارہ شماریات کی مردم شماری جن میں 1981، 1998 اور 2017 شامل ہیں، میں مذہبی اقلیتوں کی درست آبادی کے اعدادوشمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کی آبادی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا جو کہ اقلیتوں کی نشستوں کی تعداد میں اضافے کا سبب بننا چاہئیے۔
آئین کے آرٹیکل 51 کے مطابق "قومی اسمبلی میں غیر مسلموں کے لیے 10 نشستیں مخصوص کی گئیں"۔ اس شق کی مزید وضاحت کے لیے آئین میں لکھا گیا ہے کہ "قومی اسمبلی میں نشستیں سرکاری طور پر شائع شدہ آخری مردم شماری کے مطابق آبادی کی بنیاد پر ہر صوبے، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات اور وفاقی دارالحکومت کے لیے متعین کی جائیں گی"۔
مذہبی اقلیتوں کا کتنے فیصد ووٹ بینک بڑھا؟
اوپر نقشے میں دیے گئے اعدادوشمار کے مطابق 2022 میں اقلیتوں کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 39 لاکھ 56 ہزار 336 تک پہنچ گئی ہے۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ ووٹ آئندہ آنے والے انتخابات میں امیدواروں کی ہار اور جیت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ملک بھر میں ہندو ووٹرز 20 لاکھ 73 ہزار 983 جبکہ مسیحی 17 لاکھ 3ہزار288 ہیں اور باقی اقلیتوں کے ووٹ 1 لاکھ 74 ہزار 165 ہیں۔ 2018 کے جنرل الیکشن میں اقلیتوں کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 36 لاکھ 31 ہزار 471 تھی۔ گزشتہ 37 سالوں اور 9 جنرل الیکشنز میں مذہبی اقلیتوں کے ووٹوں کا تناسب دیکھا جائے تو 26 لاکھ 46 ہزار 133 رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ 1985 کے عام انتخابات میں اقلیتوں کے 9 لاکھ 85 ہزار 338 ووٹ رجسٹرڈ تھے۔ اس انتخاب میں مسلم امیدواروں کے ساتھ ساتھ اقلیتی برادری نے بھی اپنے اپنے امیدواروں کو ووٹ کاسٹ کیے تھے۔ 1985 کے عام انتخابات میں ملک بھر میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 کروڑ 43 لاکھ 96 ہزار 661 تھی جبکہ اس میں اقلیتی ووٹوں کا تناسب 3.3 فیصد تھا۔ اسی طرح 2018 کے عام انتخابات میں کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 10 کروڑ 59 لاکھ 55 ہزار 409 تھی جبکہ الیکشن میں اقلیتی ووٹوں کا تناسب 3.8 فیصد تھا۔ گزشتہ 9 انتخابات میں اقلیتوں کے ووٹوں کے تناسب میں صرف 0.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن چیتن لال نے بتایا کہ اصل مسئلہ نیشنل ڈیٹا بیس میں رجسٹریشن کا ہے جس پر نہ تو حکومت اور نہ ہی مذہبی اقلیتوں کے فلاحی ادارے توجہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 2018 کے اعدادوشمار کے مطابق ہندو ووٹروں کی تعداد تقریباً 18 لاکھ تھی جو 2013 کی انتخابی لسٹوں کے مقابلے میں تقریباً ساڑھے 3 لاکھ زیادہ ہے۔ تعلیم کی کمی اور سماجی آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے مذہبی اقلیتیں رجسٹرڈ نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اصل آبادی کا تعین بھی نہیں ہو پاتا۔
رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد کہیں کم اور کہیں زیادہ
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جون 2022 کی ووٹر لسٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت مذہبی اقلیتوں کے کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 39 لاکھ 56 ہزار 336 ہے جس میں مردوں کے رجسٹرڈ ووٹ 21 لاکھ 52 ہزار 143 ہیں جبکہ خواتین کے رجسٹرڈ ووٹ 18 لاکھ 41 ہزار 193 ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ اقلیتوں کے رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد صوبہ سندھ میں ہے جس میں مذہبی اقلیتوں کے کل ووٹوں کی تعداد 22 لاکھ 17 ہزار 141 اور ہندو ووٹرز کی تعداد 19 لاکھ 36 ہزار 7449 جبکہ مسیحی ووٹرز کی تعداد 2 لاکھ 54 ہزار 731 اور دیگر اقلیتی ووٹرز کی تعداد 25 ہزار661 ہے۔ دوسرے نمبر پر پنجاب میں کل اقلیتی ووٹرز کی تعداد 16 لاکھ 41 ہزار 838 ہے۔ یہاں مسیحی برادری کا ووٹ بینک 13 لاکھ 99 ہزار 468 ہے جبکہ ہندو کمیونٹی کے ووٹرز کی تعداد 1 لاکھ 3 ہزار 658 جبکہ دیگر اقلیتی ووٹرز 1 لاکھ 38 ہزار 709 ہیں۔ بلوچستان میں اقلیتی رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 51 ہزار 245 ہے جن میں سے ہندو ووٹرز کی تعداد 28 ہزار 551 جبکہ مسیحی ووٹرز 20 ہزار 761 اور دیگر اقلیتی ووٹرز 1 ہزار 933 ہیں۔ کے پی کے میں کل اقلیتی ووٹرز کی تعداد 46 ہزار 115 ہے جن میں سے مسیحی ووٹرز کی تعداد 33 ہزار 328 جبکہ ہندو ووٹرز 5 ہزار 25 اور دیگر اقلیتوں کے ووٹ 7 ہزار 762 ہیں۔ اسلام آباد میں کل اقلیتی ووٹرز کی تعداد 41 ہزار 9 سو 77 ہے جن میں سے مسیحی ووٹرز 38 ہزار 744 اور دیگر اقلیتی ووٹروں کی تعداد 3 ہزار 233 ہے۔
صوبہ خیبر پختوخوا میں سب سے زیادہ اور سب سے کم رجسٹرڈ ووٹوں والے اضلاع
کے پی کے میں زیادہ رجسٹرڈ ووٹوں میں ضلع پشاور 19 ہزار 749، نوشہرہ 4 ہزار 723، کوہاٹ 30 ہزار 036، خیبر 2 ہزار 314 اور ایبٹ آباد 1 ہزار 951 شامل ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 5 اضلاع ایسے ہیں جن میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 100 سے بھی کم ہے۔ ان میں کولئی پالس 8، کوہستان لوئر 12، چترال اپر 19، کوہستان اپر 25 اور کرک میں 89 افراد شامل ہیں۔
صوبہ بلوچستان میں سب سے زیادہ اور سب سے کم رجسٹرڈ ووٹوں والے اضلاع
بلوچستان میں سب سے زیادہ اقلیتی ووٹوں کی تعداد ضلع کوئٹہ میں 19ہزار567 ہے۔ دیگر اضلاع میں جعفر آباد 5115، لسبیلہ 4278، خصدار 2503 اور کیچ 2771 شامل ہیں۔ صوبے کے پانچ اضلاع ایسے ہیں جن میں مذہبی اقلیتوں کے ووٹوں کی تعداد 50 سے بھی کم ہے۔ ان میں موسیٰ خیل 12، واشک 45، سوراب 30، باکھران 24 اور آواران 50 شامل ہیں۔
صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ اور سب سے کم رجسٹرڈ ووٹوں والے اضلاع
پنجاب کے 4 اضلاع میں اقلیتی رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 1 لاکھ سے زیادہ ہے۔ سیالکوٹ میں 110906، لاہور میں 352606، گوجرانوالہ میں 126291 اور فیصل آباد میں 180986 اقلیتی ووٹ رجسٹرڈ ہیں۔ سب سے کم رجسٹرڈ ووٹوں والے اضلاع میں راجن پور 528، پاکپتن 3984، لودھراں 3043، ڈیرہ غازی خان 1485 اور بھکر میں 1389 شامل ہیں۔
صوبہ سندھ میں سب سے زیادہ اور سب سے کم رجسٹرڈ ووٹوں والے اضلاع
سندھ کے 6 اضلاع میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 1 لاکھ سے زیادہ ہے۔ عمر کوٹ 287281، تھر پارکر 339392، ٹنڈو الہیار 123179، سانگھڑ 216611، میر پور خاص 272480 اور بدین میں 183821 شامل ہیں۔ اسی طرح سب سے کم رجسٹرڈ ووٹوں والے اضلاع میں سجاول 12466، نوشہرو فیروز 11743، کراچی ویسٹ 14123، ومبر شہداد کوٹ 6318 اور دادو میں 5385 شامل ہیں۔
اقلیتوں کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 میں کی گئی ترامیم
الیکشن ایکٹ 2017 کے نفاذ کے بعد اقلیتوں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے قانون سازی کی گئی تھی۔ ایکٹ کی دفعہ 48 میں مذہبی اقلیتوں کے لیے درج ذیل خصوصی اقدامات اٹھانے کا کہا گیا تھا:
1۔ انتخابات کے لیے اقلیتوں کی انتخابی فہرستوں میں معذور افراد اور ٹرانس جینڈر شہریوں کی رائے دہندگان کی حیثیت سے رجسٹریسن کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں۔
2۔ مذہبی اقلیتوں میں موجود معذور افراد اور ٹرانس جینڈر کے قومی شناختی کارڈ بنائے جائیں اور ہدایت کی گئی کہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی اس کام کو جلد از جلد مکمل کرے۔
3۔ انتخابی حلقوں میں مردوں اور عورتوں کے ووٹوں کی شرح کا اندراج تو موجود ہے جبکہ قومی اسمبلی کے کس حلقے میں اقلیتی مردوں اور عورتوں کے کتنے ووٹ ہیں، یہ اعدادوشمار حلقہ وار رجسٹرڈ ووٹرز کی لسٹ میں شامل کیے جائیں۔
تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی جے پرکاش کا کہنا ہے کہ 2002 میں پرویز مشرف کے دور سے پہلے تمام انتخابات میں اقلیتوں کی الگ سے ووٹر لسٹیں تیار ہوتی تھیں جس سے ہمیں علم ہو جاتا تھا کہ حلقے میں کتنے ووٹ خواتین کے ہیں اور کتنے ووٹ مردوں کے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس انتخابی نظام سے مطمئن ہیں کیونکہ یہ برابری کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کہ حلقے میں کتنے ووٹ اقلیتوں کے ہیں۔ الیکشن ایکٹ کی اس شق پر کہ حلقوں میں اقلیتی برادری کے خواتین اور مردوں کے ووٹوں کا بھی اندراج ہونا چاہئیے، یہ ایک اچھا اقدام ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے ممبر قومی اسمبلی کھیل داس نے مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ 2017 کی مردم شماری کے اعدادوشمار میں بھی اقلیتوں کی آبادی میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں دیکھنے میں آیا تھا۔ اس معاملے میں حکومت کو چاہئیے کہ ان بینادی کاموں پر اداروں کی توجہ مرکوز کرے کیونکہ آبادی کے تناسب سے ہی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ سندھ کے دو اضلاع عمر کوٹ اور تھرپارکر سے انتخابات میں جنرل نشستوں پر بھی امیدوار کامیاب ہو کر اسمبلی کا حصہ بنتے ہیں کیونکہ ان اضلاع میں اقلیتوں کی آبادی 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ مزدور افراد اور ٹرانس جنیڈر کے شناختی کارڈ نہ ہونا ایک اہم مسئلہ تو ہے مگر اس کی ایک وجہ عوام کا تعلیم یافتہ نہ ہونا بھی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دیہی علاقوں میں مسلم اور اقلیی شہریوں کو اس بات کا شعور نہیں ہوتا کہ فیملی سرٹیفکیٹ کی کیا اہمیت ہے۔ اس وقت قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کی نشستوں کی کل تعداد 30 ہے۔ ان میں قومی اسمبلی کی 10، پنجاب کی 8، سندھ کی 6، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی 3، 3 نشستیں شامل ہیں۔
اقلیتی برادری کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ غیر مسلموں کے مسائل حل کرنے کے لیے قانون ساز اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی زیادہ ہو گی تب ہی ان کی ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی۔ دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ 1985 میں جب آبادی کم اور ووٹرز بھی کم تھے تب اسمبلیوں میں اقلیتوں کی نمائندگی زیادہ ہونے پر کسی قسم کے اعتراضات نہیں تھے تو اب کیوں ہیں؟ 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 207.684 ملین ہے جس میں اضافے کی شرح 2.40 رہی۔ جبکہ مذہبی اقلیتوں کی آبادی 7.32 ملین ہے جس میں اضافے کا تناسب 2.4 رہا۔
ادارہ برائے سماجی انصاف کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے انٹرویو میں بتایا کہ میرے خیال میں قومی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد میں اضافہ آبادی کے تناسب سے نہیں بلکہ اقلیتی برادری کے لیے ایک مثبت اقدام کے طور پر کیا جانا چاہئیے۔ ملک میں ہماری نمائندگی جو کہ ہماری آبادی ہے، اس کے اصل میں اعدوشمار کیا ہیں یہ اہم مسئلہ ہے۔ آبادی کے ساتھ ہی اقلیتوں کے تمام قانونی، معاشرتی اور انصاف سے متعلق معاملات جڑے ہوئے ہیں۔ 2017 کی مردم شماری پر ہمارے تحفظات ہیں جس کی وجہ سے ہم نے ادارہ شماریات میں مئی 2022 کو ایک وائٹ پیپر بھی پیش کیا ہے۔ ہم نے درخواست کی ہے کہ 2017 کی مردم شماری میں شامل اقلیتوں کے اعدادوشمار پر ایک بار پھر سے غور کیا جائے تا کہ ملک میں تمام مذہبی اقلیتوں کو ان کی اصل آبادی کا علم ہو سکے۔
اگر آئین پاکستان کی رو سے دیکھا جائے تو ملک کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مذہبی اقلیتوں کی نشستوں کا تناسب آبادی کے لحاظ سے طے کیا جاتا ہے۔ لہٰذا آبادی میں اضافے کے درست اعدادوشمار کو مقامی سطح پر یونین کونسلز اور نادرا میں درج کروانا اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی ذمہ داری ہے۔ اس اندراج کے بعد ہی قومی سطح پر ان کی آبادی کا درست تخمینہ لگایا جا سکے گا اور پارلیمنٹ میں نشستوں کی تعداد طے کرنے کے علاوہ دیگر شہری سہولتوں کی ترسیل میں بھی حکومت کے لیے آسانی پیدا ہو جائے گی۔