وہاب ریاض نے سلمان بٹ کو بطور مشیر اپنے پینل میں شامل کر کے جو بے وقوفی کی تھی، اس پر ہونے والی تنقید کے بعد اب اسد شفیق کو قومی سلیکشن کمیٹی میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اسد شفیق پاکستان کی جانب سے 77 ٹیسٹ کھیل چکے ہیں۔ ان کو 3 سال قبل صرف ایک سیریز میں ناکامی کے بعد ڈراپ کر دیا گیا تھا۔ اسد شفیق مسلسل دو سال سے ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترین کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ میں تو توقع کر رہا تھا کہ بطور بیٹر دورہ آسٹریلیا کے لیے ان کی واپسی ہو گی۔ چلیں اسد شفیق خود نہ ٹیم میں منتخب ہو سکے، اب ان کو باصلاحیت کھلاڑیوں کو منتخب کرنے کا موقع مل گیا۔ اسد شفیق کے لیے نیک خواہشات۔
چیف سلیکٹر وہاب ریاض نے 27 ٹیسٹ کھیلے ہیں جبکہ کمیٹی کے رکن اسد شفیق نے 77 ٹیسٹ کھیلے ہیں جن میں انہوں نے 4655 رنز بنائے، 12 سنچریاں اور 27 نصف سنچریاں سکور کیں۔ اسد شفیق نے 60 ون ڈے میچوں میں 1389 رنز بنائے جن میں 13 نصف سنچریاں شامل ہیں جبکہ 176 فرسٹ کلاس میچوں میں 10641 رنز بنائے جن میں 27 سنچریاں اور 58 نصف سنچریاں شامل ہیں۔ ایک وقت تھا پاکستان کی مڈل آرڈر بیٹنگ لائن میں اسد شفیق کا بنیادی کردار تھا۔ یونس خان، مصباح الحق کے بعد اظہر علی اور اسد شفیق ہی سکور کرتے تھے۔
اسد شفیق نے بیرون ممالک برطانیہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ سمیت ہر جگہ سنچریاں بنائیں جبکہ ہوم گراؤنڈ ان دنوں متحدہ عرب امارات کے میدان دبئی، شارجہ اور ابوظہبی ہوتے جہاں اسد شفیق کی سنچریاں ہیں۔ صرف ایک ٹیسٹ سیریز جو بعد از کورونا برطانیہ میں کھیلی گئی، وہاں اسد شفیق ناکام رہے۔ اس کے بعد ان کو ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا۔ اس کے بعد پچھلے دو سالوں سے وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترین کارکردگی دکھانے کے باوجود قومی ٹیم میں منتخب نہیں ہو سکے جو ایک سوالیہ نشان ہے۔
جہاں تک وہاب ریاض کا تعلق ہے انہوں نے 27 ٹیسٹ میچوں میں 83، 91 ون ڈے میچوں میں 120 اور 136 فرسٹ کلاس میچوں میں 440 وکٹیں حاصل کی ہیں۔ اسد شفیق ٹیسٹ اور فرسٹ کلاس کرکٹ میں وہاب ریاض سے زیادہ تجربہ رکھتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے عبوری چیئرمین ذکا اشرف کی فہم وفراست پر قربان ہونے کو جی چاہتا ہے جنہوں نے کم تجربہ کار وہاب ریاض کو چیف سلیکٹر اور زیادہ تجربہ کار اسد شفیق کو ان کی کمیٹی کا رکن بنایا ہے۔ مبینہ طور پر وہاب ریاض کے پیچھے بہت طاقتور سفارش ہے، تب ہی تو بیک وقت نگران صوبائی حکومت کے مشیر برائے کھیل بھی ہیں اور پاکستان کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر بھی ہیں۔ یاد رہے یہ وہی وہاب ریاض ہیں جو لاہور میں ہونے والی شدید بارشوں کے دوران بے مقصد اپنی مہنگی گاڑی پر راہگیروں پر گندے پانی کے چھینٹے پھینکتے گھوم رہے تھے۔ بے مقصد لمبے بوٹ پہن کر بارش کے پانی میں کھڑے تھے۔
وہاب ریاض نے میچ فکسنگ میں ملوث سلمان بٹ کو سوچے سمجھے بغیر اپنی سلیکشن کمیٹی کا حصہ بنا دیا، پھر ان پر بہت تنقید ہوتی ہے جس پر وہ فیصلہ تبدیل کرتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو یقینی طور پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی طرف سے مداخلت ہو سکتی تھی۔ ان کے اس متنازعہ فیصلے کے بعد یہ سوال ہونے لگا کہ اگر سلمان بٹ کو کرکٹ بورڈ میں لگایا جا سکتا ہے تو پھر دانش کنیریا اور محمد آصف کا کیا قصور ہے؟
قصور کسی کا بھی نہیں، قصور ان حکمرانوں کا ہے جو کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے لیے ذکا اشرف اور نجم سیٹھی کو لے آتے ہیں جن کا کرکٹ سے کوئی تعلق نہیں۔ ان میں سے ایک صحافی جبکہ دوسرا شوگر ملز کا مالک ہے۔