بلاول بھٹو ن لیگ سے شکست تسلیم کر چکے ہیں

سندھ میں مسلسل اور بار بار حکمرانی کی وجہ یہ نہیں کہ وہاں کے عوام پیپلز پارٹی سے بہت خوش ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پیپلز پارٹی کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ میاں صاحب کی مقبولیت کے باوجود مسلم لیگ ن نے ماضی میں مفاہمتی سیاست کی وجہ سے اس صوبہ پر توجہ نہیں دی۔

بلاول بھٹو ن لیگ سے شکست تسلیم کر چکے ہیں

جب سے میاں نواز شریف پاکستان واپس تشریف لائے ہیں اور انتخابی سیاست کا آغاز ہوا ہے، بلاول بھٹو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ آج ان کی توپوں کا رخ مسلم لیگ ن کی طرف ہے اور جس جماعت کی وہ 2018 سے مخالفت کرتے آئے تھے اب انہیں اس جماعت میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی بلکہ درپردہ اس کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے متمنی ہیں۔

بلاول بھٹو اچھی طرح جانتے ہیں کہ پنجاب کی سیاست نواز شریف کے گرد گھومتی ہے اور جسے پنجاب منتخب کرے وہی مرکز میں بھی حکومت بناتا ہے۔ واقفان حال ایک عرصہ سے کہہ رہے تھے کہ 'میاں جدوں آئے گا، لگ پتا جائے گا' اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ نواز شریف کی واپسی پر عوام کی طرف سے ان کا استقبال اور مینار پاکستان پر جلسہ سیاسی حریفوں کے لئے ایک کھلا پیغام تھا۔

نواز شریف نے واپسی کے بعد پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں کی جانب رخ کرنا شروع کیا ہے اور اس میں انہیں قابل ذکر پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ کوئٹہ میں بلوچستان کی متعدد معروف سیاسی شخصیات کی ن لیگ میں شمولیت بھی اسی جانب اشارہ کرتی ہے کہ اقتدار کا ہما نواز شریف کے سر پر بیٹھنے والا ہے۔ اس سے قبل زرداری صاحب بھی کوئٹہ کا دورہ کر چکے ہیں اور چند سیاسی شخصیات نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان بھی کیا لیکن میاں صاحب کے دورے نے اس صوبہ کی سیاسی صورت حال مکمل طور پر تبدیل کر دی ہے۔ یہ سیاسی تبدیلی بھی بلاول بھٹو کی ہیجانی کیفیت کا باعث ہے۔

سندھ ایک ایسا صوبہ ہے جس میں 2008 سے 2023 تک یعنی مسلسل 15 سال پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے لیکن اتنے طویل عرصے تک حکومت کرنے کے باوجود پیپلز پارٹی سندھ کے عوام کے لئے کوئی قابل ذکر کام نہیں کر سکی۔ سندھ میں مسلسل اور بار بار حکمرانی کی وجہ یہ نہیں کہ وہاں کے عوام پیپلز پارٹی سے بہت خوش ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پیپلز پارٹی کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ میاں صاحب کی مقبولیت کے باوجود مسلم لیگ ن نے ماضی میں مفاہمتی سیاست کی وجہ سے اس صوبہ پر توجہ نہیں دی۔ پھر یہ کہ مسلم لیگ ن کا صوبہ سندھ میں سیاسی ڈھانچہ بھی مضبوط نہیں رہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس جماعت کے صدور تبدیل ہوتے رہے، اس لئے یہاں کے عوام میں اسے پذیرائی نہیں مل سکی۔

بشیر احمد میمن نے مسلم لیگ ن سندھ کا صدر بننے کے بعد کام کرنا شروع کیا ہے اور یہاں کے سیاسی رہنما اب اس جماعت کی جانب متوجہ ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ میاں صاحب کو اس صوبہ کی جانب توجہ دینی ہو گی کیونکہ یہاں کے عوام پیپلز پارٹی کے زیر اثر وڈیرہ شاہی کے مظالم سے عاجز آئے ہوئے ہیں۔ اگر میاں صاحب اس صوبہ میں اپنی ذاتی مقبولیت کا احساس کرتے ہوئے یہاں کے عوام کے بیچ کچھ وقت گزاریں تو عوام انہیں مایوس نہیں کریں گے۔ واضح رہے کہ میاں صاحب کے متوقع دورہ سندھ سے بھی پیپلز پارٹی اور بالخصوص بلال بھٹو پریشان نظر آتے ہیں۔

پنجاب میں میاں صاحب کی مقبولیت کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے اور وہاں انہیں کسی چیلنج کا سامنا نہیں۔ مسلم لیگ ن کے لئے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ خود پر سے ایک صوبہ کی جماعت ہونے کا لیبل اتار سکتی ہے لیکن اس کے لئے میاں صاحب کو پنجاب سے نکل کر دوسرے صوبوں کی جانب توجہ مرکوز کرنا ہوگی اور ان صوبوں کے عوام کے درمیان کچھ وقت گزارنا ہوگا۔ انتخابات میں اب زیادہ وقت نہیں رہا، بہرحال میاں صاحب کیا حکمت عملی اپناتے ہیں اس کے لئے ہمیں چند دن انتظار کرنا ہو گا۔

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔