افغان طالبان نے خواتین کے ملبوسات کی دکانوں پر رکھے پتلوں (ڈمیز) کے سروں کو قلم کروانا شروع کر دیا ہے۔ یہ احکامات افغانستان کی وزارت برائے نیکی کی تبلیغ اور برائی کی روک تھام نے دیئے ہیں۔
انڈیپینڈنٹ اردو کے مطابق یہ واقعہ صوبہ ہرات میں پیش آیا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ یہ اسلامی قوانین کے خلاف ہے۔ افغان وزارت کے مقامی سربراہ عزیز رحمان نے ان ڈمیز کو ’مجسمے‘ قرار دیا اور لوگوں پر اسلامی قانون کے خلاف ان کی پوجا کرنے کا الزام لگایا ہے۔
نومبر میں طالبان کی وزارت برائے نیکی کے فروغ اور برائی کی روک تھام کے نئے قوانین نے افغانستان میں سوپ اوپیرا اور ڈراموں کو خواتین اداکاروں کو شامل کرنے سے روک دیا تھا۔ ان ضوابط کے تحت ان تمام فلموں کو بھی ممنوع قرار دیا گیا ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ’اسلامی یا افغان اقدار‘ کے منافی ہیں اور ساتھ ہی حجاب کو تمام خواتین صحافیوں کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے۔
https://twitter.com/natiqmalikzada/status/1478028602813779972?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1478028602813779972%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.siasat.pk%2Fforums%2Fthreads%2FD8B7D8A7D984D8A8D8A7D986-DAA9DB92-DB81D8A7D8AADABED988DABA-D8A7D8A8-D9BED8AAD984DB92-D8A8DABEDB8C-D985D8ADD981D988D8B8-D986DB81DB8CDABA.809428%2F
مقامی کاروباری افراد نے طالبان کے اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ نئے قوانین سے کمپنیاں مزید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فیصلے کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سنگین سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
افغانستان کی سابق جج مرزیہ بابا کرخیل نے اس پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کے حالیہ احکامات سے پتا چلتا ہے کہ وہ حقیقت میں کون لوگ ہیں۔ اس سے ان کا گھنائونا چہرہ ظاہر ہوتا ہے۔ یہ عمل وحشیانہ ہے۔ کسی ملک کی قیادت کرنے والی حکومت کا رویہ تو ایسا نہیں ہوتا۔ اگر طالبان پتلوں کو قبول نہیں کر سکتے تو وہ افغانستان میں عورت کو کیسے قبول کر سکتے ہیں۔
بابا کرخیل کا کہنا تھا کہ طالبان تبدیلی کا ڈرامہ کرتے ہیں۔ ان کی جانب سے معافی کا اعلان بھی بڑا جھوٹ ہے۔ ہمیں طالبان کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔ ان کا رویہ ظاہر کر رہا ہے کہ ان کا کردار کیا ہے۔ یہ ان کا اصل چہرہ ہے۔
خیال رہے کہ طالبان نے اپنے گذشتہ دور حکومت میں خواتین کو کسی مرد رشتہ دار کے بغیر کام کرنے اور گھر سے باہر نکلنے اور لڑکیوں کو سکول جانے سے روک دیا تھا۔
15 اگست 2021ء کے وسط میں اتحادی افواج کے انخلا کے بعد اقتدار میں آنے والے طالبان نے فوری طور پر اعلان کیا کہ افغان خواتین کو تمام کھیلوں میں حصہ لینے سے روک دیا جائے گا۔