افغانستان میں امن صرف اسلامی نظام سے مشروط ہے: طالبان

افغانستان میں امن صرف اسلامی نظام سے مشروط ہے: طالبان
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ امن مذاکرات کے لیے پرعزم ہیں تاہم افغانستان میں ایک ’حقیقی اسلامی نظام‘ ہی جنگ کے خاتمے اور حقوق کو یقینی بنانے کا واحد راستہ ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کئی مہینوں سے تعطل کا شکار ہیں اور مئی کے مہینے میں جب امریکا نے اپنی فوج کے انخلا کا حتمی فیصلہ کیا تھا تب سے ملک بھر میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ خدشات بھی بڑھ رہے ہیں کہ اگر طالبان اقتدار میں واپس آئے تو وہ اسلامی قوانین دوبارہ نافذ کر دیں گے جس کے تحت انہوں نے لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی عائد کردی تھی۔

تاہم تشدد میں اضافے کے باوجود طالبان کے شریک بانی اور نائب رہنما ملا عبدالغنی برادر نے کہا ہے کہ یہ گروپ امن مذاکرات کے لیے پرعزم ہے۔
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’مذاکرات میں ہماری بہت زیادہ شرکت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہم (باہمی) افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات کو حل کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں تنازع کے خاتمے کا واحد راستہ تمام غیر ملکی افواج کے جانے کے بعد اسلامی نظام کا قیام ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک حقیقی اسلامی نظام افغانوں کے تمام مسائل کے حل کے لیے بہترین ذریعہ ہے‘۔واضح رہے کہ مئی میں امریکی انٹیلی جنس کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگر طالبان اقتدار میں واپس آئے تو خواتین کے حقوق سے متعلق گزشتہ دو دہائیوں میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کو ختم کردیا جائے گا۔