العریبیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق افغان دارالحکومت کابل میں واقع قومی عجائب گھر میں اس وقت بدھ مت کے تاریخی مجسموں اوردوسرے نوادرکی بحالی کا کام بڑی عرق ریزی سے جاری ہے۔ طالبان نے اپنے دورِ حکومت میں نیشنل میوزیم میں رکھے ان تاریخی مجسموں اور نوادر کو ہتھوڑوں اور بموں سے تہس نہس کردیا تھا۔
اب کہ امریکا اور طالبان کے درمیان ملک میں گذشتہ اٹھارہ سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ان کے درمیان گذشتہ سال سے اب تک مذاکرات کے کئی ادوار ہوچکے ہیں لیکن وہ ابھی تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ اگر امریکا، طالبان اور افغان حکومت کے درمیان کوئی امن معاہدہ طے پاجاتا ہے اور طالبان مستقبل میں دوبارہ برسراقتدار آ جاتے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟ بہت سے افغان اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ طالبان نے اگر ماضی کی طرح اپنی سخت گیری دکھائی تو وہ ایک مرتبہ پھر قدیم دوڑ میں لوٹ جائیں گے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ افغان حکام جس فنونِ لطیفہ کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں تو اس کا کیا بنے گا؟
طالبان نے اپنے سابق پانچ سالہ دورِ حکومت میں سخت قوانین کا نفاذ کیا تھا، انھوں بچیوں کی تعلیم اور موسیقی سننے پر پابندی عاید کردی تھی، خواتین کو آزادانہ نقل وحرکت کی اجازت نہیں تھی۔ انھوں نے کابل کے عجائب گھر میں بدھا اور دوسرے مجسموں کو خلاف اسلام قرار دے کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ صوبہ بامیان میں بدھا کے دنیا کے سب سے بڑے مجسمے کو بھی بم نصب کر کے تباہ کر دیا تھا۔
کابل کے عجائب گھر میں اب کارکنان بڑی ہُنرمندی اور دیدہ ریزی سے طالبان کے ہاتھوں تباہ شدہ مجسموں کے ٹکڑے، ان کے کان، ہاتھ، سر، پیشانی اور آنکھیں وغیرہ جوڑ کر از سرنو ان کے بت تراشنے اور انھیں ایک شکل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
کابل کے عجائب گھر میں طالبان کی تباہ کاریوں کے عینی شاہد بعض افغان حکام اب بھی برسرملازمت ہیں۔ ان میں ایک تو شیرازالدین سیفی نامی کارکن ہیں۔ سنہ 2001ء میں ایک روز ہتھوڑا بردار طالبان کی جب عجائب گھر میں مجسموں کو ’ مفتوح‘ بنانے کے لیے آمد ہوئی تھی تو وہیں موجود تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ طالبان نے بعض منتخبہ اشیاء پر حملے کیے تھے۔ بالخصوص انسانی شکل کے مجسموں کو نشانہ بنایا تھا۔ انھیں ہتھوڑے مار مار کر ادھ موا کر دیا تھا، توڑ دیا تھا یا پھر فرش پر پٹخ کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا۔ یوں انھوں نے صدیوں پرانی تاریخ کو آناً فاناً ملیا میٹ کردیا تھا۔
شیراز سیفی کے بہ قول طالبان نے ڈھائی ہزار سے زیادہ مجسمے توڑے تھے۔ اب ان سب کی بحالی یا ان کے ٹکڑے ٹکڑے جوڑ ایک شکل بنانے میں پورا ایک عشرہ لگ سکتا ہے لیکن فی الحال ہمیں اتنی خوشی ضرور ہے کہ ہم نے ٹوٹے مجسموں اور دوسری اشیاء کے ٹکڑے اکٹھے کر دیے ہیں۔
طالبان نے جن مجسموں کو توڑا تھا، ان میں مشرقی افغانستان سے چند عشرے قبل دریافت ہونے والے بدھا کے ہڈا مجسمے بھی شامل تھے۔یہ افغانستان کے موجودہ مشرقی شہر جلال آباد کے نواح سے دریافت ہوئے تھے۔
عجائب گھر میں تاریخی نوادر کی بحال کا 2004ء میں آغاز ہوا تھا۔اس عمل میں امریکا کی شکاگو یونیورسٹی کا اورنٹیل انسٹی ٹیوٹ بھی میوزیم کی معاونت کررہا ہے۔ اس کے مطابق طالبان کی دستبرد سے محفوظ رہ جانے والے نوادر کی تعداد 135,000 ہے۔
ان کے علاوہ حالیہ برسوں میں چند سو مجسموں اور نوادر ہی کو بحال کیا جاسکا ہے۔ بعض نوادر عجائب گھر سے غائب یا لاپتا ہیں۔ انھیں اسمگلروں نے بیرون ملک اسمگل کرکے بھاری داموں فروخت کردیا تھا۔حکام کے مطابق اب ان کی بازیابی کے لیے ان کی آن لائن تصاویر پوسٹ کی جائیں گی تاکہ ان کا سراغ لگ سکے اور انھیں واپس افغانستان لایا جاسکے۔