پنجاب کے سابق گورنر اور پیپلز پارٹی کے رہنما سلمان تاثیر کی 11ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید سلیمان تاثیر نے ملک میں رواداری کے فروغ اور اقلیتوں کے حقوق کی خاطر اپنی جان قربان کردی۔
واضح رہے کہ سلمان تاثیر کے قتل کے ایک ماہ بعد مذہبی اقلیتوں کے وزیر شہباز بھٹی جنھوں نے اس قانون کی مخالفت کی تھی، کو بھی اسلام آباد میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا اور 2016ء میں سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو سزائے موت دی گئی تو ان کے جنازے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی جس کے بعد بریلوی مکاتب فکر کی سب سے بڑی جماعت تحریک لبیک پاکستان مرحوم مولانا خادم رضوی کی قیادت میں وجود میں آئی جس نے بعد میں شدت پسند جماعت کی شکل اختیار کی اور اس تنظیم پر بعد میں پابندی عائد کی گئی مگر متشدد مظاہروں کے بعد اس تنظیم سے پابندی واپس لی گئی۔
سلمان تاثیر کے قتل کے بعد ملک میں توہین مذہب کے نام پر درجنوں افراد کو قتل کیا گیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کئی سالوں سے توہینِ مذہب کے کیسز پر نظر رکھے ہوئے ہے اور ان کے مطابق ان کیسز میں زیادہ تر مسلمانوں کو ہی پکڑا جاتا ہے۔
نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس کے مطابق 1987ء سے لے کر اب تک 633 مسلمانوں، 494 احمدیوں، 187 مسیحیوں اور 21 ہندؤوں کے خلاف ان قوانین کے تحت مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر توہینِ قرآن کے مقدمات ہیں اور توہینِ رسالت کے مقدمات قدرے کم ہیں۔
سینیٹ کے ایک اقلیتی رکن نے نیا دور میڈیا کو نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ آج سینیٹ کا اجلاس تھا اور سلمان تاثیر کی برسی بھی تھی لیکن آج ایوان میں کوئی ان کا نام لینے کو تیار نہیں کیونکہ سب یہ سمجھتے ہیں کہ برا ہوا لیکن انتہاپسندوں کی ڈر سے کوئی بات نہیں کرتا۔
انھوں نے مزید کہا کہ آج میں بے حد اداس ہو کیونکہ جو ہمارے لئے سب سے موثر آواز تھے ان کو قتل کیا گیا، مگر ملک کے سب سے بالادست ادارے سینیٹ میں آج اس کے نام تک کو یاد نہیں کیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس ملک پر انتہا پسندی کا سایہ ہے اور انتہا پسند عناصر اتنے مضبوط ہوئے ہیں کہ ان کا نام لینے کو کوئی تیار نہیں ہیں۔ میں سمجھتا ہو آج ایک سیاہ دن ہے کہ پارلیمان میں سلمان تاثیر کی شہادت پر بات نہیں ہوئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر کو قتل کیا جاسکتا ہے تو ایوان کے نمائندگان ان پر کیسے بات کریں وہ کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آج ایک سیاہ دن ہے، سینیٹ اجلاس بھی ہے اور سلمان تاثیر کی برسی بھی، مجھ سمیت پیپلز پارٹی کی سینئر لیڈرشپ بھی سینیٹ اجلاس میں موجود تھی مگر کسی نے سلمان تاثیر کا نام نہیں لیا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ انتہا پسند عناصر ہمیں قتل کر سکتے ہیں۔ ان کے مطابق سری لنکن شہری کی ہلاکت کو ایوان میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور توہین مذہب کے قوانین کے غلط استعمال پر بات بھی ہوئی لیکن جو سب سے موثر آواز تھے، سلمان تاثیر ان کا نام تک نہیں لیا گیا اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ وہ یہ عناصر کتنے مضبوط اور ہم کتنے ڈرپوک ہیں۔
سلمان تاثیر کے قتل پر بہت سارے مبصرین کی رائے ہے کہ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد کیا توہینِ مذہب کے الزام کو ایک ہتھیار بنا دیا گیا ہے؟
ماضی میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے وابستہ رہنے والے صحافی اور تجزیہ کار طاہر عمران میاں اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ توہین مذہب کا قانون اب پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ ناصرف تنقیدی آوازوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی آلہ کار کے طور پر بھی استعمال ہوگا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ اس پر جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریک لبیک کی صورت میں زہر گھولا جا رہا ہے اور اوپر سے نصاب کی کتابوں میں اسلامی مواد میں اضافہ ہو رہا ہے تو اب ہر کلاس روم، سکول، کالج، گلی محلہ اور سیاسی جلسہ میدان جنگ بنے گا اور پاکستان میں انتہا پسندی مزید بڑھے گی۔
طاہر عمران سمجھتے ہیں کہ سماج میں انتہا پسندی جتنی بڑھے گی اس کے اثرات ملکی سیاست میں نظر آئے گی اور جو ماضی میں سیاست دانوں کے ساتھ ہوا وہی مستقبل میں بھی ہوتا رہیگا۔
یہ قوانین کب بنائے گئے؟
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق توہینِ مذہب کے قوانین پہلی مرتبہ برصغیر میں برطانوی راج کے زمانے میں 1860ء میں بنائے گئے اور پھر 1927ء میں ان میں اضافہ کیا گیا تھا۔
1980ء اور 1986ء کے درمیان جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کے دور میں متعدد شقیں ڈالی گئیں۔ جنرل ضیا ان قوانین کو اسلام سے مزید مطابقت دینا چاہتے تھے اور احمدیہ برادری (جسے 1973ء میں غیر مسلم قرار دیا جا چکا تھا) کو ملک کی مسلمان اکثریت سے علیحدہ کرنا چاہتے تھے۔
شدت پسندی اور دائیں بازو کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار سبوخ سید سمجھتے ہیں کہ پاکستان انتہا پسندی کے بارود پر کھڑا ہے اور آئے روز کسی نہ کسی کو اس معاملے پر قتل کیا جاتا ہے اور سلسلہ روکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔
ان کے مطابق مذہب کو ہمیشہ سیاسی آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا اور مذہب کو استعمال کرکے سیاسی ایجنڈے پورے کئے گئے اور مستقبل میں بھی ایسا ہوتا رہے گا۔ ان کے مطابق حال ہی میں جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایک تقریر میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف یہی کارڈ کھیلا اور ماضی میں بھی یہی کیا۔ موجودہ حکومت کے بارے میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ یہ حکومت توہین مذہب کے قوانین کو ختم کرنا چاہتی ہے اور آسیہ مسیح کو موجودہ حکومت نے رہا کیا تو یہی وہ اشتعال انگیزی ہے جو آگے مسائل پیدا کریگی۔
کیا توہین مذہب کا الزام ایک سیاسی آلہ کار بن چکا ہے؟
سبوخ سید اور طاہر عمران اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ توہین مذہب کے الزامات ماضی میں بھی سیاسی ایجنڈے پورے کرنے کے لئے استعمال کئے گئے اور اب بھی ایسا ہوتا رہیگا۔
سبوخ سید سمجھتے ہیں کہ سلمان تاثیر نے اپنے گفتگو میں قوانین پر بات کی مگر ان کی رائے کو توہین رسالت سے جوڑ دیا گیا اور پھر اس کے بعد میڈیا اور سماج نے جو ماحول پیدا کیا اس سے خوفناک صورتحال پیدا ہوئی اور ایک گورنر کو اپنے ذاتی سیکیورٹی گارڈ نے قتل کیا تو یہ واضح ہے کہ کوئی بھی اس قانون پر بات کرکے خود کو سلمان تاثیر بنا کر تختہ دار پر لٹکنے کو تیار نہیں ہوگا۔
سبوخ سید کے مطابق جن پر الزام لگتا ہے اور جب ان کے خلاف مقدمہ درج ہوتا ہے تو سب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مجرم ہے اور جب عدالتیں عدم شواہد کی بنیاد پر ان کو بری کر دیتی ہیں تو لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی گئی ہے کہ توہین مذہب کے مجرموں کو عدالتیں ریلیف دیتی ہے اور عدالتوں سمیت حکومت وقت پر بھی سوال اٹھتے ہیں مگر میں بتاتا چلوں کہ مولویوں کی زبانوں پر لوگ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ توہین مذہب کے قوانین کو ختم کیا جا رہا ہے اور پھر لوگ قانون ہاتھ میں لے کر چوکوں اور عدالتوں کے باہر فیصلے کرتے ہیں جو کہ ایک خوفناک رجحان ہے۔