Get Alerts

طالبان کا سابق صدر اشرف غنی کو قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، ملا عبدالغنی برادر

طالبان کا سابق صدر اشرف غنی کو قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، ملا عبدالغنی برادر
افغان نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر نے کہا ہے کہ طالبان کا سابق صدر اشرف غنی کو قتل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ انہوں نے یہ بات افغانستان کے سرکاری ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔

قابل ذکر ہے کہ اشرف غنی اور ان کے قریبی ساتھی کہتے رہے ہیں کہ طالبان کابل پر قبضے کے بعد انہیں قتل کرنا چاہتے تھے۔

اشرف غنی نے گذشتہ دنوں بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ملک چھوڑنے کے اپنے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت کے ان کے سیکیورٹی چیف نے کہا تھا کہ یہاں سب کی موت یقینی ہے۔

گذشتہ سال کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد اشرف غنی کے بھائی حشمت غنی نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کے بھائی کے "قتل کی سازش کابل میں افراتفری اور خونریزی پیدا کرنے کے لئے کی جا رہی ہے۔"

افغانستان کے سرکاری ٹی وی چینل کے صحافی نے ملا برادر سے سوال کیا کہ، ’’سابق صدر اشرف غنی نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا اگر وہ ملک نہ چھوڑتے تو انہیں قتل کر دیا جاتا۔ کیا امارت اسلامیہ کے پاس ایسا کوئی منصوبہ تھا؟

اس کے جواب میں ملا برادر نے کہا آپ نے دیکھا ہوگا کہ یہاں بہت سے لوگ ٹھہرے ہیں، لوگوں سے مل رہے ہیں، غیر ملکی لوگوں سے مل رہے ہیں، کیا انہیں کوئی پریشانی ہوئی؟

ملا برادر سابق افغان صدر حامد کرزئی اور سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ یہ دونوں رہنما کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد بھی وہیں رہ رہے ہیں۔

لیکن معزول صدر محمد اشرف غنی، ان کے سات قریبی مشیر اور ان کے بیشتر وزرا کابل پر طالبان کے کنٹرول کے دوران ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے۔

https://twitter.com/rtaworld/status/1478040139037302787?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1478040139037302787%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.bbc.com%2Fhindi%2Finternational-59865452

ملا برادر نے اپنے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ نے تمام لوگوں کے لئے معافی کا اعلان کیا تھا اور اس کا اطلاق اشرف غنی پر بھی ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "اللہ نے ہمیں افغانستان میں کامیابی دی، یہ اس کی مدد کا نتیجہ تھا، اسی لئے ہمارے امیر نے ان تمام لوگوں کو معافی دینے کا اعلان کیا جو پرانی انتظامیہ سے وابستہ تھے۔

ملا برادر کے ساتھ انٹرویو میں سابق افغان فوجی افسران اور پولیس اہلکاروں کے مارے جانے اور تشدد کا نشانہ بننے کی رپورٹس پر بھی رائے مانگی گئی۔ انہوں نے اپنے جواب میں کہا کہ "پچھلی حکومت کے فوجیوں کے خلاف کھلے عام ایسا کوئی ظلم نہیں ہوا، اگر یہ ڈھکے چھپے کیا گیا تھا تو جن لوگوں نے ایسا کیا تھا وہ گرفتار ہو چکے ہیں۔ ہماری فورسز کو کسی کو مارنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔"

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے گذشتہ ماہ اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ طالبان کے دور حکومت میں 100 سے زائد سابق سکیورٹی اہلکاروں کو بے دردی سے قتل کیا جا چکا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے 15 اگست سے 31 اکتوبر کے درمیان 47 سابق سیکیورٹی فورسز کے اعدادوشمار بھی اکٹھے کئے جنہوں نے یا تو طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالے یا جنہیں طالبان نے پکڑ کر قتل کر دیا۔

اس رپورٹ کے بعد امریکا سمیت 22 ممالک نے ایک مشترکہ بیان میں طالبان سے کہا تھا کہ وہ سابق افغان سیکیورٹی فورسز کو نشانہ نہ بنائیں۔ اس سے قبل انسانی حقوق کی ایک اور تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اپنی رپورٹ میں طالبان پر بلا روک ٹوک قتل عام کا الزام لگایا تھا۔

ملا عبدالغنی برادر ان چار طالبان رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے 1994ء میں افغانستان میں طالبان کی بنیاد رکھی تھی۔ 2001ء میں افغانستان پر امریکی قیادت میں فوجی کارروائی کے نتیجے میں طالبان کی طاقت ختم ہو گئی۔ ملا برادر اس کے بعد طالبان کی شدت پسند سرگرمیوں کے لیے تنظیم کا سب سے اہم رہنما بن گئے۔