'ملا عبدالغنی برادر کو افغان حکومت کے حوالے کرنے کے خلاف تھا، نواز شریف کا موقف ان سے پوچھیں'

'ملا عبدالغنی برادر کو افغان حکومت کے حوالے کرنے کے خلاف تھا، نواز شریف کا موقف ان سے پوچھیں'
سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ملا برادر کو افغان حکومت کے حوالے کرنے کی سخت مخالفت کی تھی، میں اس بات کا بھی حامی تھا کہ ملا برادر کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے اور ملا برادر کو اپنا ہم نوا بنانا چاہیے۔ انہوں نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بطور وزیرداخلہ میں نے افغان طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر کو افغان حکومت کے حوالے کرنے کی سخت مخالفت کی تھی، تاہم سابق وزیر اعظم نوازشریف کا اس حوالے سے کیا مؤقف تھا اس کا جواب نواز شریف خود بہتر انداز میں دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں حکومت پاکستان کی طرف ملاعبدالغنی برادر کے ساتھ نہ صرف اچھا سلوک کرنے کا حامی تھا، بلکہ اس بات کا بھی حامی تھا کہ ہمیں ملا برادر کو اپنا ہم نوا بنانا چاہیے۔

طالبان کی حکومت سازی سے متعلق پیش رفت

عالمی نشریاتی ادارے نے طالبان کے اعلی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ متوقع طور پر سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوانزادہ کے ماتحت ایک اعلی اختیاراتی کونسل بنائی جائے گی جس سربراہی صدر کرے گا رپورٹ میں بتایا گیا ہے ملا اخونزادہ افغانستان کے آئندہ صدر اور اعلی اختیاراتی کونسل کے سربراہ ہونگے. واضح رہے کہ ”اردوپوائنٹ“نے کئی ماہ قبل طالبان کے مجوزہ جمہوری ماڈل پر اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ افغان طالبان ایران اور چین کی طرزکے جمہوری ماڈل پر غور کررہے ہیں جہاں حقیقی معنوں میں اختیارات اعلی اختیاراتی شوری کے پاس ہوتے ہیں.
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملا بردار ممکنہ طور پر ملک کے نائب صدر اور سپریم لیڈرکے معاون کی حیثیت سے کام کریں گے‘اس وقت سپریم لیڈرملا ہیبت اللہ اخونزادہ کے ملا عبدالغنی برادر سمیت تین نائب ہیں جن میں ملا عمر کے صاحبزادے ملا یعقوب اور سراج الدین حقانی ہیں . ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک کے وزیرخارجہ کے لیے پاکستان میں طالبان کے سابق سفیر ملاعبداسلام ضعیف اور سہیل شاہین کے ناموں پر غور ہورہا ہے امریکی اور مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق بین الاقوامی عطیہ دینے والے اور سرمایہ کاروں کی نظر میں نئی حکومت کی قانونی حیثیت افغانستان کی معیشت کے لیے اہم ہو گی تاہم افغان امور کے دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کو اپنی حیثیت منوانے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں ہوگا کیونکہ ممکنہ طور پر آغازمیں ہی انہیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دومستقل رکن ممالک روس اور چین کی حمایت حاصل ہوجائے گی.
پاکستان سمیت کئی دیگر ممالک کی جانب سے طالبان کی حکومت کا خیرمقدم کیئے جانے کا امکان ہے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مغرب بالادستی کا دور ختم ہورہا ہے ا س لیے مغربی لیڈر شپ کو اس حقیقت کو تسلیم کرکے دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت ترک کردینی چاہیے. واضح رہے اسی طرح کی غیر منتخب لیڈر شپ کونسل کے ذریعے طالبان نے اپنی پہلی حکومت چلائی تھی جس نے 1996 سے لے کر 2001 میں امریکی قیادت میں بین الاقوامی افواج کے فضائی حملوں تک اسلامی شرعی نظام کو نافذ کیا اسلام پسند حلقے اسی طرزحکومت کو عالمی طاقتوں کے افغانستان پر حملوں کی وجہ سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک طالبان نے عالمی استعمارکے سرمایہ درانہ نظام کو کھلے عام چیلنج کیا تھا.
ادھر طالبان نے بارودی سرنگیں صاف کرنے والے ایک بڑے خیراتی ادارے ہالو ٹرسٹ کو افغانستان میں اپنا مشن بحال کرنے کی اجازت دے دی ہے خیال رہے کہ افغانستان میں گذشتہ دو دہائیوں میں ہونے والی جنگ کے دوران کئی بارودی سرنگیں بنائی گئی ہیں، جن کی صفائی اب شہریوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔

ن لیگ، چوہدری نثار اور نواز شریف
یاد رہے کہ چوہدری نثار کی ن لیگ سے وابستگی 4 دہائیوں کے قریب ہے۔ تاہم گزشتہ 7 سے 8 سالوں میں اسکی اعلی' قیادت سے جو اختلاف ہوا اسکے بعد اب راہیں جدا ہو چکی ہیں۔ 2013 میں پارٹی ٹکٹ نہیں مل سکا تو پھر انھوں نے شیر کے بجائے گائے کے نشان پر اس حلقے سے آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ چوہدری نثار کا تعلق راولپنڈی کے قریب چکری کے علاقے سے ہے جہاں سے اُنھوں نے پنجاب اسمبلی کی نشست بھی جیتی۔
وہ راولپنڈی کی سیاست میں بھی خاصے متحرک رہتے ہیں۔ جب سے مسلم لیگ ن وجود میں آئی ہے وہ اس جماعت کی صف اوّل کی قیادت میں رہے ہیں اور تین دہائیوں سے زائد عرصے تک ن لیگ کے پلیٹ فارم سے ہی انتخابات میں حصہ لیا ہے۔
اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں داخلے سے قبل ایچی سن کالج کے دنوں سے ان کی عمران خان سے دوستی چلی آ رہی ہے اور اب بھی دونوں رہنماؤں کے آپس میں اچھے روابط ہیں مگر چوہدری نثار علی خان نے کبھی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار نہیں کی۔
جب 2014 میں تحریک انصاف نے 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف دھرنا دیا تو عمران خان نے خود فون کر کے اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار سے ڈی چوک تک آنے کے لیے مدد مانگی تھی۔
نواز شریف نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ چوہدری نثار کے مؤقف میں خاصی سختی ہوتی ہے اس وجہ سے بعض دفعہ اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقاتوں میں ان کو ساتھ لے کر ہی نہیں جاتے۔
مسلم لیگ کے سینیئر رہنماؤں کے مطابق نواز شریف نے اپنے دور اقتدار کے آخری دنوں میں چوہدری نثار علی خان کے مشوروں کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا تھا۔