افغان طالبان کا کہنا ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں واقع ان کے سیاسی دفتر سے ایک اعلیٰ سطح کا وفد اتوار کو امن عمل کے حوالے سے مذاکرات کے لیے پاکستان روانہ ہوگیا ہے۔
دی اینڈیپینڈنٹ نے لکھا کہ طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین کی جانب سے ٹوئٹر پر اعلان کیا گیا کہ ملا عبدالغنی برادر وفد کی قیادت کریں گے، جو پاکستان کی وزارت خارجہ کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں اور امن عمل سے متعلق سینیئر پاکستانی عہدیداروں سے ملاقاتیں کریں گے۔
انہوں نے ٹویٹس کے سلسلے میں کہا: 'امارت اسلامیہ کے عہدیدار امن عمل کے بارے میں اپنے خیالات پیش کرنے کے لیے تنظیم کی سیاسی حکمت عملی کے تحت دنیا کے دیگر ممالک کے دورے باقاعدگی سے کرتے ہیں۔'
یہ وفد ایک ایسے وقت میں پاکستان آرہا ہے، جب حال ہی میں اسلام آباد نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تحت طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبد الغنی برادر سمیت افغان طالبان کے سینیئر رہنماؤں پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پابندیوں کے اعلان کے بعد افغان طالبان نے کہا تھا کہ پاکستان کی جانب سے ان کے سینیئر رہنماؤں پر مالی پابندیاں سخت کرنے کے اعلان سے بین الافغان مذاکرات 'رکاوٹ' کا شکار ہوجائیں گے، جس سے افغانستان میں امن عمل متاثر ہوگا۔
پاکستان کی جانب سے طالبان رہنماؤں پر یہ پابندیاں 18 اگست کو منظور کی گئیں لیکن انہیں جمعے کی شام کو منظر عام پر لایا گیا۔ جن افراد پر پابندیاں عائد کی گئیں، ان میں طالبان کے چیف امن مذاکرات کار ملا عبد الغنی برادر، ان کے نائب شیر محمد عباس ستانکزئی اور افغان طالبان کے نائب سربراہ سراج الدین حقانی کے نام شامل ہیں۔
ملا برادر افغانستان میں طالبان تحریک کے بانیوں میں سے ہیں۔ جب 2001 میں افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا تو وہ اس وقت روپوش ہوگئے تھے۔ پھر 2010 میں پاکستانی حکام نے انہیں کراچی سے گرفتار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ 2013 میں جب طالبان سے مذاکرات کی بحث شروع ہوئی تو طالبان کی طرف سے مذاکرات کے آغاز کے لیے ملا برادر کی رہائی کی شرط رکھی گئی تھی۔ افغان حکومت کی جانب سے بھی ملا برادر کی رہائی کی باتیں کی گئیں اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے ملا برادر کی رہائی کا عندیہ بھی دیا تھا مگر رہائی نہ ہو سکی، بالآخر اکتوبر 2018 میں پاکستان نے ملا برادر کو قید سے رہا کیا۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب طالبان اور افغان حکومت اس شورش زدہ ملک کے مستقبل کے سیاسی روڈ میپ کا فیصلہ کرنے کے لیے بین الافغان مذاکرات کا آغاز کرنے والے ہیں۔
'پابندیاں نئی نہیں'
طالبان کے سیاسی ترجمان سہیل شاہین نے اتوار کو دوحہ سے عرب نیوز کو بتایا: 'یہ نئی پابندیاں نہیں ہیں، اس سے پہلے بھی امارت اسلامیہ کے متعدد ارکان پر پابندیاں عائد کی جاچکی ہیں، لیکن اب جب ہم بین الافغان مذاکرات میں داخل ہو رہے ہیں تو یقیناً یہ پابندیاں رکاوٹ کا باعث بنیں گی۔'
پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طالبان پر پابندی کے حوالے سے کمیٹی کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق تھا، جس میں رکن ممالک کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 'متعلقہ افراد پر سفری اور اسلحے کی پابندی عائد کریں یا ان کے فنڈز اور دیگر مالی وسائل کو منجمد کریں۔'
سہیل شاہین نے عرب نیوز کو بتایا کہ طالبان کے پاس پاکستانی اثاثے اور بینک اکاؤنٹس نہیں ہیں اور وہ پاکستان سے اسلحہ نہیں خریدتے ہیں۔
پاکستانی حکومت کے اس اقدام کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے ملک کو بلیک لسٹ سے بچنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔ ایف اے ٹی ایف نے گذشتہ سال پاکستان کو اپنی گرے لسٹ میں شامل کیا تھا۔
تاہم یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب امریکہ کو طالبان کے ساتھ 29 فروری 2020 کو دوحہ میں ہونے والے اپنے معاہدے کے تحت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان سے طالبان رہنماؤں کے خلاف عائد پابندیاں ختم کرنے کے لیے مشاورت کا آغاز کرنا چاہیے۔
دوحہ معاہدے میں کہا گیا تھا کہ افغانستان میں بین الافغان مذاکرات کے آغاز کے ساتھ ہی امریکہ '27 اگست 2020 تک موجودہ امریکی پابندیوں اور طالبان رہنماؤں کے سر پر رکھے گئے انعامات کی فہرست کا ایک انتظامی جائزہ لینے کا آغاز کرے گا۔'
پاکستان نے 18 اگست کو اپنے قانونی نوٹیفیکیشن (ایس آر او) کے تحت بغیر کسی پیشگی اطلاع کے طالبان رہنماؤں کے فنڈز اور دیگر مالی اثاثوں کو منجمد کرنے کا حکم دیا تھا۔ یہ آرڈر ان افراد کے ملک میں داخلے یا اخراج کو بھی روکتا ہے۔ حکام کے مطابق یہ معمول کی بات ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے ہفتے کی شام اپنے ایک بیان میں کہا تھا: 'جاری کردہ ایس آر اوز اقوام متحدہ کے نامزد کردہ افراد یا اداروں کی فہرست کی معلومات کی عکاسی کرتے ہیں۔ کچھ میڈیا اداروں کی جانب سے یہ خبریں کہ ان ایس آر اوز کے ذریعے کوئی نئی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں، حقیقت پسندانہ نہیں ہیں۔'
دوسری جانب طالبان رہنماؤں پر پاکستان کی پابندیوں کو افغانستان کی جانب سے اتوار کو 'اہم پیش رفت' قرار دیا گیا ہے۔
افغان وزارت خارجہ کے ترجمان گران ہیواڈ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پوسٹ کیے گئے ویڈیو پیغام میں کہا: 'یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ وزارت خارجہ نے اس کا نوٹس لیا ہے اور جائزے کے بعد نتائج لوگوں کے ساتھ شیئر کرے گی۔