افغان جنگجوؤں اور پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے مبینہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات برسوں پرانے ہیں۔ لیکن دفتر خارجہ کے مطابق دوحہ میں طالبان کے سیاسی کمیشن کے قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب افغان طالبان کا سینیئر وفد پاکستانی حکام کے ساتھ باضابطہ بات چیت کے لیے اسلام آباد کے دورے پر آیا ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کی افغان طالبان کے وفد سے ملاقات ہوئی۔ بعد میں دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ فریقین نے افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکرات کی فوری بحالی پر اتفاق کیا۔
طالبان کے گیارہ رُکنی سیاسی وفد کی سربراہی ملا عبدالغنی برادر نے کی۔ انہیں پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں نے سن دو ہزار دس میں حراست میں لے لیا تھا اور ان کی گرفتاری کراچی کے مضافاتی علاقے سے دکھائی گئی۔
ملا عبدالغنی برادر کو پھر آٹھ سال قید میں رکھنے کے بعد دو ہزار اٹھارہ میں رہا کیا گیا، جس کے بعد وہ قطر چلے گئے۔ پاکستانی حکام کے مطابق اس کا مقصد طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار کرنا تھا۔
ملا برادر کون ہیں؟
ملا برادر کا تعلق پوپلزئی قبیلے سے بتایا جاتا ہے۔ یہ قبیلہ افغانستان میں انتہائی بااثر سمجھا جاتا ہے اور سابق افغان صدر حامد کرزئی کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے۔ اس قبیلے کے افراد سرحد کے دونوں جانب یعنی پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور پشاور میں بھی آباد ہیں۔
ان کا تعلق بنیادی طورپر افغانستان کے جنوبی ضلع اورزگان سے بتایا جاتا ہے لیکن وہ کئی سال طالبان کے مرکز کے طور پر مشہور افغان صوبہ قندھار میں مقیم رہ چکے ہیں۔
ملا عبد الغنی برادر افغانستان میں طالبان کارروائیوں کی نگرانی کے علاوہ تنظیم کے رہنماؤں کی کونسل اور تنظیم کے مالی امور چلاتے تھے۔
افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی کا بی بی سی سے گفتگو میں کہنا تھا افغان طالبان کے سابق امیر ملا عمر اور ملا برادر ایک ہی مدرسے میں درس دیتے تھے اور 1994 میں قائم ہونے والی تنظیم طالبان کے بانی قائدین میں سے تھے۔ملا برادر طالبان دور میں ہرات صوبے کے گورنر اور طالبان کی فوج کے سربراہ رہے ہیں۔
افغانستان پر کام کرنے والے اکثر صحافیوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ملا محمد عمر نے جب افغانستان میں طالبان تحریک کا آغاز کیا تو ملا برادر ان چند افراد میں شامل تھے جنھوں نے بندوق اٹھا کر طالبان سربراہ کا ہر لحاظ سے ساتھ دیا اور تحریک کی کامیابی تک وہ ان کے ساتھ ساتھ رہے۔
تاہم جب طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو ان کے پاس کوئی خاص عہدہ نہیں تھا۔ بعد میں انھیں ہرات کا گورنر بنا دیا گیا۔
ملا برادر طالبان تحریک میں اہم فوجی کمانڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ طالبان کے آرمی چیف بھی رہ چکے ہیں۔ طالبان نے سنہ 1998 میں جب افغان صوبے بامیان پر قبضہ کیا تو اس حملے کے وقت ملا برادر طالبان کے کمانڈر تھے۔
یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے طالبان کمانڈروں کےلیے ایک کتابچے کی صورت میں ضابطۂ اخلاق بھی تحریر کیا تھا جس میں جنگی گرُ ، قیدیوں اور غیر ملکیوں سے سلوک اور دیگر طریقے بتائے گئے ہیں۔