پاکستان میں صحافت زبوں حالی کی شکار

پاکستان میں صحافت زبوں حالی کی شکار
تحریر:(نضیرا اعظم) پاکستان میں صحافت ایک زلزلہ آمیز دور سے گذر رہی ہے، جہاں کبھی ہلتی زمین ٹھہر  سی جاتی ہے تو دوسرے ہی لمحے کہیں سے ریت جھڑنے لگتی ہے اور کہیں ملبہ گرتا ہے اور اس ملبے کے نیچے دبے قلم کی آہ وزاری کسی کے کانوں تک نہیں پہنچتی حتٰی کہ وہ پیوند خاک ہو جاتے ہیں۔

یہ ایک عجیب دور ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا  اور ایسے میں کچھ ستم ظریفوں کو یہ بھی کہتے سنا کہ آج صحافت اپنے بہترین دور سے گذر رہی ہے، خبروں کا انبار لگا ہوا ہے اور صحافت چمک رہی ہے۔شاید  خوش فہموں کی یہ توجیہہ  ان  کے  لئے تو درست ہے جنہیں نہ تو صحافتی دنیا کا کچھ ادراک ہے اور نہ ہی جنہیں صحافیوں کے مسائل و معاملات سے کوئی سروکار ہے یا پھر ٹی  وی چینلوں کے اسکرینوں پر نظر آنے والے ان جغادری تجزیہ نگاروں کے حق میں ہے جنہیں سیاست اور سیاسی افراد کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا کہ ان ے نزدیک ”خبر“ سیاسی افراد کے بیانات اور انکی پل پل کی مصروفیات ہیں جن پر یہ لوگ بے تکان بولتے ہیں اور اپنی دھن میں مگن ایسی ایسی پیش گوئیاں کرتے ہیں جو کبھی سچ کا لبادہ نہ اوڑھ سکیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=Sa2anzfNpco

اس ہلتے ڈولتے صحافتی دور میں بھی کچھ سنجیدہ آوازیں ضرور ہیں ، مگر اس وقت کچھ نہیں بلکہ بہت سی سنجیدہ آوازوں کی ضرورت ہے جو ان مسائل سے لوگوں کو آگاہ کرسکے جس  کے بارے میں وہ جانتے ہی نہیں کہ صحافت تو نام ہی جاننے اور شناخت  کا ہے، کہنے کا اور سچ کہنے کا، نبٹنے کا اور چیلنج سے نبٹنے کا ہے۔

صحافتی ابتلا کا یہ دور صرف پاکستان پر ہی نہیں آیا بلکہ یوں لگتا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک اس دور سے گذر رہے ہیں، امریکہ جو سوپر پاور ہے یہاں بھی صحافت پر ادبار آیا ہوا ہے، خاص طور پر اخبارت میں جہاں ہزاروں کے حساب سے اخباری کارکن نکال دئیے گئے۔ آج سے دس سال قبل اگر ایک بڑے اخبار میں صحافی اور دیگر کارکنان کی تعداد 71 ہزار تھی تو آج وہ گھٹ کر صرف 39 ہزار رہ گئی ہے اور اس میں سے بھی چھانٹی ہو نے کا خدشہ ہے۔ حکومت کو اس امر سے کوئی دلچسپی نہیں کہ کتنے لوگ میڈیا سے نکالے گئے ہیں ۔ یہاں کے اخباروں کے مطابق صدر ٹرمپ  کے لئے صحافت  ایک ”پنچنگ بیگ “ ہے ،ان سب کے باوجود  صحافی   مسلسل اپنی ذمہ داریوں کو پورا کر رہے ہیں اور مختلف اخبارات اور ٹی  وی چینل صدر اور حکومت  کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرتے رہتے ہیں  مثلاً کچھ صحافی صرف اسی بات کی تحقیق میں لگے رہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کب اور کس وقت غلط بیانی یا گمراہ کن بیانات دیتے ہیں، اخبارات کے مطابق 773 دنوں میں صدر ٹرمپ نے 10،700  سے زائد  بار یا تو جھوٹ بولا ہے اور یا پھر گمراہ کن بیانات دئیے ہیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=5SFeVFsWgio

میڈیا ہمارے معاشرے اور حکومت کا مرکز ہے اور اس کی مرکزیت اسی وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب اس سے جڑے صحافیوں کو اپنے امور کی بجا آوری میں کسی قسم کے خدشات نہ ہوں اور انہیں اپنے بچوں کے مستقبل پر یقین ہو۔

افسوس کا مقام یہ کہ پاکستانی صحافت  کی تقدیر ان ہاتھوں میں ہے جنہیں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے سے فرصت نہیں جو ایک طرف تو کارکن صحافیوں کو سچ لکھنے اور کہنے کی تلقین کرتے ، کسی سیاسی جماعت سے  وابستگی پر سر زنش کرتے ہیں تو دوسری طرف وہ خود کسی سیاسی جماعت کے حجرے میں بیٹھے نظر آتے ہیں اور خود کبھی اس سچ کو دیکھتے نہیں جو روز روشن کی طرح عیاں ہے اور جسے سارا زمانہ دیکھ رہا ہے۔

میں الیگزنڈرا  او کاسیو کورٹیز، جو امریکہ کی جواں سال ابھرتی ہوئی  سیاست دان کے اس ٹوئیٹ پر اپنا مضمون ختم کروں گی جو انہوں نے  صحافت کی زبوں حالی اور  میڈیا کمپنی” ٹرونک “ جو ملک کے کئی بڑے اخباروں کی مالک ہے جنہوں نے  نیو یارک کے اخبار نیوز ڈیلی  کے آدھے ادارتی بورڈ کے افراد کو فارغ خطی  دیدی۔ کورٹیز کہتی ہیں” .ذرائع ابلاغ کے ادارے اس امر کے مستحق ہیں کہ ان میں بہتری لائے جائے ناکہ یہ کہ زیادہ سے زیادہ منافع کے لئے [دن رات محنت کرنے والے] صحافیوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے یا مالکان کے مفادات کو فروغ دیا جائے۔“