جیسے بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کو کوئی نہیں مانتا، نواز شریف کی نااہلی کو بھی کوئی نہیں مانے گا: سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ر اعجاز احمد چوہدری

جیسے بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کو کوئی نہیں مانتا، نواز شریف کی نااہلی کو بھی کوئی نہیں مانے گا: سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ر اعجاز احمد چوہدری
جمعرات کی شام امریکی چینل وائس آف امریکہ پر سہیل وڑائچ کو انٹرویو دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے سابق جج اور لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اعجاز احمد چودھری نے پانامہ کیس میں نواز شریف کو تاحیات نااہلی کی سزا دینے کو ریاست بمقابلہ ذوالفقار علی بھٹو کیس سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ جیسے اس کیس کو آج تک قوم نے نہیں مانا، اس کو بھی لوگ نہیں مانیں گے۔ انہوں نے اس موقع پر ایک ایسی حیرت انگیز بات کی طرف اشارہ کیا جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ دراصل اس فیصلے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔

جسٹس اعجاز احمد چودھری نے کہا کہ وہ 2014 میں سپریم کورٹ کے جج تھے جب پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر اکٹھے دھرنا دے دے رکھا تھا اور وہ 2013 انتخابات میں دھاندلی اور ماڈل ٹاؤن سانحے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ جسٹس اعجاز چودھری نے کہا کہ اس وقت جاوید ہاشمی نے ایک پریس کانفرنس کی تھی جس میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ نواز شریف کو سپریم کورٹ کے ذریعے نکالا جائے گا۔

https://www.youtube.com/watch?v=W8JicDRHS2U from 6:27 to 7:06

جسٹس اعجاز چودھری کا کہنا تھا کہ اس وقت جب جاوید ہاشمی نے یہ بات کی تو میں نے سوچا کہ ناصر الملک صاحب چیف جسٹس ہیں اور وہ تو بڑے ٹھیک آدمی ہیں، ایسا تو نہیں لگتا کہ انہوں نے کسی کے ساتھ بات چیت کر لی ہو۔ خیر وقت گزرتا گیا۔ اور پھر نواز شریف کو سپریم کورٹ نے ہی نکالا پانامہ کیس میں۔

انہوں نے سابق چیف جسٹس صاحبان آصف سعید کھوسہ اور ثاقب نثار کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ کسی ذاتی عناد کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب ان دونوں حضرات کا سال پورا ہوا بطور ایڈ ہاک جج تو ان دونوں کی نوکری کی توثیق کے لئے چیف جسٹس صاحب نے تجویز کر دیا۔ نواز شریف صاحب نے بھی یہ نام آگے بھیج دیے۔ لیکن اس وقت صدر رفیق تارڑ صاحب تھے جنہوں نے ان دونوں کی نوکریوں کی توثیق کو روکتے ہوئے ان کو ایک سال بطور ایڈ ہاک جج برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ میری اطلاعات کے مطابق نواز شریف اس بات پر صدر رفیق تارڑ سے بات کرنے کے لئے صدارتی ہاؤس گئے لیکن رفیق تارڑ صاحب اس بات پر اڑے رہے اور جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ (اور ان کے علاوہ ایک تیسرے جج) کی مستقل تعیناتی کو روک دیا۔ سپریم کورٹ کے سابق جج صاحب کا کہنا تھا کہ یہ دونوں بہت قابل ججز تھے اور میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن اگر بیچ کے باقی تمام ججز مستقل ہو جائیں اور آپ نہ ہوں تو تکلیف تو ہوتی ہے۔

یہ انٹرویو ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب عمران خان حکومت چاروں طرف سے مشکلات میں گھری ہوئی ہے اور اس کے مخالفین کے حالات بدستور بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ انٹرویو جمعرات کی شام سامنے آیا اور جمعہ کی صبح سابق جج ارشد ملک کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔ یہ وہی جج صاحب ہیں جنہوں نے نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس میں فیصلہ دیا تھا اور بعد ازاں ان کی ایک ویڈیو منظرِ عام پر آئی تھی جس میں یہ اپنے ساتھ بیٹھے برطانیہ میں مقیم ایک پاکستانی بزنس مین سے ملاقات کرتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ ان کی ایک پرانی ویڈیو کچھ لوگوں کے ہاتھ لگ گئی تھی جس میں وہ کسی خاتون کے ساتھ کچھ نازیبا حرکات کر رہے تھے۔ یہی ویڈیو دکھا کر ان سے بقول ارشد ملک کے نواز شریف کے خلاف فیصلہ لیا گیا کیونکہ ان کو دھمکی دی گئی تھی کہ اگر یہ فیصلہ نواز شریف کے خلاف نہ آیا تو اس ویڈیو کو لیک کر دیا جائے گا۔

یہ ویڈیو نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس میں عوام کے سامنے پیش کی تھی جس پر ارشد ملک کو معطل کر دیا گیا تھا۔ اس ویڈیو میں ارشد ملک کو یہ کہتے بھی سنا جا سکتا ہے کہ ان کی جانب سے نواز شریف کیس میں بڑی زیادتی ہو گئی ہے، کرپشن کوئی تھی ہی نہیں، بس فیصلہ خلاف دینا پڑا۔ حال ہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے دوران بھی اس کیس پر سوال اٹھا تھا جب فروغ نسیم نے ججوں کے کنڈکٹ پر بات کی تو ان کو بنچ کی طرف سے جواب آیا تھا کہ آپ کی وزارتِ قانون اپنے ماتحت جج کا تو کچھ کرتی نہیں، سپریم کورٹ کے ججز کے کنڈکٹ پر آپ سوالات اٹھا رہے ہیں۔ یہاں اشارہ واضح طور پر ارشد ملک کی جانب تھا۔

اتفاق کی بات یہ ہے کہ 2 جولائی کو جس دن جسٹس اعجاز چودھری کا انٹرویو نشر ہوا، سپریم کورٹ میں ایک اور کیس میں پانامہ کیس کا فیصلہ ایک بار پھر زیرِ بحث آیا تھا جب شوگر مل اسوسی ایشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف بات کی تو جسٹس اعجاز الاحسن نے پانامہ کیس میں بنائی گئی جے آئی ٹی کا حوالہ دیا جس میں وہ خود بھی بنچ کا حصہ تھے۔ اس پر مخدوم علی خان نے انتہائی تلخ انداز میں ان کو جواب دیا تھا کہ مجھے اس مثال پر شدید تحفظات ہیں، انہوں نے جسٹس اعجاز الاحسن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے درخواست کی کہ وہ پانامہ لیکس جیسے کیسز کا حوالہ مت دیں بلکہ دنیا میں رائج بہترین قانونی پریکٹس اور کیسز کا حوالہ دیں تو بہتر ہوگا۔

اب چند ہی روز قبل سہیل وڑائچ ہی کی جانب سے وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چودھری کا بھی انٹرویو کیا گیا تھا جس میں انہوں نے حکومت کی ناکامی کا اعتراف کیا تھا۔ بعد ازاں کچھ وزرا کے درمیان وفاقی کابینہ میں لڑائی جھگڑا بھی ہوا۔ پی ٹی آئی کے متعدد ایم این ایز اپنی پارٹی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کا انٹرویو، اور اگلے ہی روز ارشد ملک کی نوکری سے برخاستگی۔ قرائن بتاتے ہیں کہ عمران خان حکومت کے لئے سب پہلے جیسا نہیں رہا۔