ٹھیک 43 برس قبل 5 جولائی 1977 کو پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تخت الٹا گیا تھا۔ اس اقدام نے پاکستان کی سیاست کا نقشہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تبدیل کر دیا۔ یہ وہ مارشل لا تھا جس نے ثابت کر دیا کہ اس ملک میں عوامی بالادستی کا خواب کوئی متفقہ آئین اور اس میں موجود کوئی آرٹیکل 6 پورا نہیں کر سکتا۔ اس فیصلے نے پاکستان کی سیاست کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا اور جنرل ضیا نے اقتدار میں آ کر افغان ’جہاد‘ کے نام پر جو سلسلہ شروع کیا، پاکستان آج تک اس فیصلے کی حدت محسوس کر رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے لوگوں سے پوچھیے تو ان کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ امریکہ نے کروایا اور پاکستان میں اس کی Proxy کا کردار ’نو ستاروں‘ یعنی پاکستان قومی اتحاد میں موجود نو جماعتوں نے ادا کیا۔ جماعتِ اسلامی کے پروفیسر غفور لیکن اپنی کتاب ’پھر مارشل لا آ گیا‘ میں لکھتے ہیں کہ پاکستان قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو چکے تھے لیکن اس کے باوجود مارشل لا لگا دیا گیا۔ تو پھر حقیقت کیا ہے؟ آخر جب اپوزیشن اور حکومت کے درمیان معاملات طے ہو گئے تو پھر فوج کو مارشل لا لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
یہی سوال مرتضیٰ سولنگی نے کیپیٹل ٹی وی پر اب سے چند سال پہلے پاکستان کے سابق سینیئر بیوروکریٹ خواجہ ظہیر احمد کے سامنے رکھا۔ خواجہ ظہیر احمد ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ اس میٹنگ میں شامل تھے جہاں انہوں نے چند روز قبل ہونے والے اپنے اور افغانستان کے صدر داؤد کے درمیان مذاکرات سے متعلق پاکستانی فوج کے سینیئر افسران کو آگاہ کیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب افغانستان میں ایک سؤویت یونین نواز حکومت موجود تھی جب کہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے اور 1974 میں لاہور کی کامیاب اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعد، اسلامی دنیا کے ایک اہم رہنما بن کر ابھر رہے تھے۔
خواجہ ظہیر بتاتے ہیں کہ گرمیوں کے دوران بھٹو صاحب اپنا دارالحکومت مری کو بنا لیا کرتے تھے اور اپنے تمام دفتری امور وہیں سے انجام دیا کرتے تھے۔ جون 1976 میں بھٹو صاحب نے فیصلہ کیا کہ افغان صدر داؤد کے ساتھ مری میں ہی ایک ملاقات کی جائے۔ یہ ملاقات خاصے دوستانہ ماحول میں ہوئی اور سمٹ کے بعد صدر داؤد واپس چلے گئے۔ اس کے چند روز بعد مرحوم جنرل اختر عبدالرحمٰن جو کہ اس وقت بارہویں ڈویژن کے ڈویژن کمانڈر تھے نے بھٹو صاحب کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا۔ اس عشائیے میں بھٹو صاحب کے علاوہ صرف تین افراد سولین سائیڈ سے شریک ہوئے تھے جن میں سے ایک بھٹو صاحب کے معاونِ خصوصی رفیع رضا تھے، ایک مری کے ایگزیکٹو آفیسر فیض الرحمٰن تھے اور تیسرے خود خواجہ ظہیر تھے۔
خواجہ ظہیر کے مطابق اس عشائیے کے دوران بھٹو صاحب نے جنرل ضیا اور دیگر فوجی افسران کو بتایا کہ صدر داؤد اور بھٹو صاحب کے درمیان مذاکرات میں ڈیورنڈ لائن پر بات چیت طے ہو گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ مطالبات صدر داؤد نے ایسے بھی کیے تھے جو کہ انہوں نے نہیں مانے جن میں سے ایک یہ تھا کہ نیشنل عوامی پارٹی کی خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حکومت بحال کی جائے۔ بھٹو صاحب نے انہیں بتایا کہ ایسا ممکن نہیں ہے لیکن یہ طے ہے کہ اگلے الیکشن جب بھی ہوں گے، اگر اس میں نیشنل عوامی پارٹی جیتے گی تو ان کے حکومت بنانے میں رکاوٹ کھڑی نہیں کی جائے گی۔
جس بات پر اتفاق ہوا، وہ یہ تھی کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کو مستقل بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کر لے گا (واضح رہے کہ اس سرحد کو افغانستان آج بھی بین الاقوامی سرحد تسلیم نہیں کرتا) اور دوسری جانب حکومتِ پاکستان نیشنل عوامی پارٹی پر سے پابندیاں ہٹا لے گی اور اس کے رہنماؤں کے خلاف آرٹیکل 6 کا مقدمہ ختم کر دیا جائے گا۔
اس بات پر جنرل ضیا نے انہیں یاد کروایا کہ ان پر پابندی تو سپریم کورٹ کے حکم کے تحت لگی ہے جس پر بھٹو صاحب نے جواب دیا کہ اس کو چھوڑیں، وہ پابندی absentia میں لگی ہے کیونکہ نیشنل عوامی پارٹی نے یہ کیس لڑا ہی نہیں۔ خواہ اس کی وجوہات سیاسی ہی کیوں نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرف سے کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے؛ اسلام آباد اور کابل بیک وقت یہ اعلان کریں گے کہ افغانستان نے پاکستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کو اپنی بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کر لیا ہے جب کہ پاکستان نے نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف غداری کا مقدمہ ختم کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت کی داؤد حکومت مکمل طور پر سؤویت یونین کے زیرِ اثر تھی اور اس کا کوئی اقدام سؤویت یونین کی مرضی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ لہٰذا یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ اگر صدر داؤد اس معاہدے پر راضی تھے تو وہ یہ فیصلہ سؤویت یونین کی اشیرباد کے ساتھ ہی کر رہے تھے۔
خواجہ ظہیر کے مطابق یہی وہ فیصلہ تھا جس نے شاید بھٹو صاحب کے مستقبل کا فیصلہ کر ڈالا۔ اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن ہو جاتا تو اگلا مرحلہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کا تھا جس میں کشمیر پر بھی کوئی مستقل فیصلہ کر کے اس خطے کو جنگ کے مستقل خطرے سے آزاد کروایا جا سکتا تھا۔ اس طرف اسی عشائیے کے دوران بھٹو صاحب نے بھی اشارہ کیا۔ اس کے بعد جنرل ضیا نے تقریر کی جس میں انہوں نے بھٹو صاحب کی پاکستانی افواج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کے حوالے سے ستائش کی اور کہا کہ جو کچھ بھٹو صاحب نے اس حوالے سے کیا ہے وہ ان سے پہلے کے 24 سالوں میں کبھی نہیں کیا گیا تھا۔ بھٹو صاحب نے بھی اپنی تقریر میں کہا کہ وہ پاکستان کی افواج کو اتنا مضبوط کر دیں گے کہ اگلی جنگ پاکستان کی سرزمین پر نہیں، دشمن کی سرزمین پر لڑی جائے گی۔
یاد رہے کہ خواجہ ظہیر کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو نے انتخابات بھی 20 ماہ پہلے اسی لئے کروا دیے تھے تاکہ نیشنل عوامی پارٹی اگر ان انتخابات میں دوبارہ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں کامیاب ہو جائے تو وہ صوبائی حکومتیں اس کے حوالے کر دی جائیں اور اگر یہ نہ ہو پائے تو صدر داؤد سے کیے گئے معاہدے کو ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف عوامی قبولیت حاصل ہو سکے۔ تاہم، مارچ 1977 میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا اور اس کے نتائج کو حزبِ اختلاف کی جانب سے تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ ان کی طرف سے مظاہرے کیے گئے۔ یہ سلسلہ تقریباً چار ماہ جاری رہا جس کے بعد حکومت اور اپوزیشن بقول پروفیسر غفور کے 4 جولائی کی رات کو اس فیصلے پر متفق ہو گئے کہ کچھ نشستوں پر دوبارہ انتخابات کروائے جائیں گے۔ لیکن اس معاہدے کے باوجود اگلی صبح جنرل ضیاالحق نے حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
خواجہ ظہیر کہتے ہیں کہ مری میں ہونے والے اس عشائیے سے واپسی پر وہ فیض الرّحمٰن کے ساتھ اپنے گھر جا رہے تھے، تو ان دونوں نے اس عشائیے میں ہونے والی گفتگو پر تبصرہ کرتے ہوئے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ بھٹو صاحب نے اس روز اپنے پتے ضرورت سے زیادہ واضح کر دیے تھے۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر تنازعات حل ہو جاتے، تو پھر جنگ کی ضرورت ہی کیوں رہتی؟ یہ بات جنرل ضیا اور ان کے ساتھیوں کو شاید گوارا نہ تھی۔