عدم اعتماد کے لئے نمبر جنوری میں پورا کر لیا گیا تھا۔ گارنٹی سعودی عرب میں دی جا چکی تھی

عدم اعتماد کے لئے نمبر جنوری میں پورا کر لیا گیا تھا۔ گارنٹی سعودی عرب میں دی جا چکی تھی
ابھی عمران خان کے قوم سے خطاب میں خارجہ امور پر خامہ فرسائی کے اثرات زائل نہیں ہوئے تھے کہ حکومت پاکستان نے تمام دنیا کے برعکس روس کے یوکرائن پر حملے کے خلاف مذمتی قرارداد پر غیرحاضر رہ کر مغربی دنیا اور امریکہ کو باہمی تعلقات کی جہت میں تبدیلی کا واضح پیغام دے دیا ہے۔ انہی ممالک کے قرضوں اور امداد پر ہمیشہ سے پاکستان کا مکمل انحصار ہے جب کہ یوکرائن وہ ملک ہے جس نے کشمیر کے معاملے پر پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔

کہاں عمران خان کو جو بائیڈن کی کال کا اٹھتے بیٹھتے انتظار تھا، اسی امریکہ کی سفارش پر آئی ایم ایف سے قرضہ بھی حاصل کیا اور کہاں وہ قوم سے خطاب میں امریکہ کی افغان جنگ اور ڈرون حملوں کے لتے لے رہے تھے۔ عمران خان سے بہتر کس کو پتہ ہوگا کہ اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینا اور ڈرون حملوں کی اجازت اس وقت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ تھا؟ ڈرون حملوں کے بارے میں باہر جو بھی موقف لیا جائے لیکن درون خانہ یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ پاکستان کو مطلوب ٹی ٹی پی کے تمام بڑے دہشت گرد فوجی آپریشنز کی بجائے انہیں ڈرون حملوں سے کیفر کردار کو پہنچے۔

عمران خان نے بڑے رسان کے ساتھ یہ جھوٹ بھی بول دیا کہ وہ ہمیشہ اس جنگ کے مخالف رہے حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ اس جنگ کے مکمل حمایتی تھے اور تبھی مخالف موقف اپنایا جب پرویز مشرف نے عمران کے خوابوں اور خوشامد کے برعکس صرف ایک قومی اسمبلی کی سیٹ پر ٹرخا دیا۔ خارجہ امور کی حساس باریکیوں کو قوم سے خطاب میں زیر بحث لانا اور ان بڑی طاقتوں کو مخالف کیمپ میں کھڑے ہو کر دکھانا جب کہ ملک آئی ایم ایف کے دیے قرض پر زندہ ہو یقیناً ایک پریشان کن امر ہے اور اگر اس کی تمام وجوہات محلاتی سازشیں ہوں تو معاملہ اور بھی تشویشناک ہو جاتا ہے۔

اسی پر بس نہیں عمران خان نے اچانک عوامی وزیراعظم بنتے ہوئے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کے برعکس پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں بھی کمی کر دی۔ اب اس معاہدے کے بخیے ادھیڑ کر عمران خان نے واضح پیغام دیا ہے کہ یہ سب کچھ میں نے آپ دوستوں کی مرضی و منشا اور ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر کیا اور اب اگر صرف مجھے ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے قربانی کا بکرا بنایا جائے گا تو خارجہ معاملات سے لے کر مالیاتی معاہدوں تک میں بطور وزیر اعظم بات وہاں تک لے جاؤں گا جہاں کسی کی کھال سلامت نہیں رہ سکتی۔ پیغام بڑا خطرناک اور واضح ہے۔

عمران خان نے اپنی تقریر میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کو عالمی کساد بازاری سے تو منسلک کر دیا لیکن چینی، گندم ،گھی، کھاد اور سیمنٹ کے کارٹل کے ذریعے سرکاری اور چندہ دینے والے لاڈلے سرمایہ داروں کی دہاڑیوں کے ذکر کی جرات نہ کر سکے۔ ہاں 'پیکا' قانون کی حمایت میں خوب برسے کیونکہ اس قانون کے ذریعے مفادات کو مشترکہ دکھانا مقصود تھا۔ فیک نیوز اور غلیظ پروپیگنڈا پر بڑے غصے میں نظر آئے حالانکہ اس ساری غلاظت کے وہ خود موجد ہیں، باقی جماعتوں نے تو بعد میں ان کے تربیت یافتہ لوگوں سے اپنے بچاؤ کی خاطر سوشل میڈیا ٹیمیں ترتیب دیں۔ ابھی کچھ دنوں ہی کی تو بات ہے جب عاصمہ شیرازی اور غریدہ فاروقی کے خلاف غلیظ ٹرینڈ بنائے گئے۔ اب جب مکافات عمل ہر دم عمران خان کا منہ چڑا رہا ہے تو برداشت جواب دے رہی ہے۔ فارن فنڈنگ اور شوکت خانم اسپتال کے نام پر غبن کی فخر درانی کی خبر پر بھی وہ سیخ پا نظر آئے۔ اسے بڑی صفائی سے شوکت خانم اسپتال کے خلاف جنگ گروپ کی مذموم مہم قرار دے دیا لیکن پیغام یہاں بھی بڑا واضح تھا کہ میرے اور آپ کے دشمن مشترکہ ہیں اور یہ قانون بھی مشترکہ دفاع کے لئے ہے، اس لئے دوبارہ مل کر چلا جا سکتا ہے۔

عمران خان کبھی دھمکی اور کبھی خدمت سے اپنا کام چلاتے آ رہے تھے۔ تمام تر مایوسی کے باوجود ان کے چاہنے والے ان کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور تھے کیونکہ اگر مفادات مشترکہ تھے تو نقصان بھی مشترکہ تھا۔ بھارت سے تعلقات کے دوبارہ آغاز اور تجارت پر اجازت دے کر مکر جانا بھی برداشت کر لیا گیا لیکن ڈی جی آئی ایس آئی کی نئی تعیناتی اور پرانے ڈی جی کی من پسند جگہ پر تعیناتی نہ ہونے نے ساری محبت کو ختم کر کے رکھ دیا۔ چین، امریکہ اور سعودی عرب سے بیک وقت تعلقات کا خراب کیا جانا بھی وہ سب کچھ ہو جانے کو ممکن بنا گیا جو عام حالات میں ممکن نہیں تھا۔ یوں تو ہر تیسرے سال کی تعیناتی پر ایسی تمام مہمات کا شروع ہونا اس ملک کا مقدر ہے لیکن اس دفعہ کی مہم نومبر کے اواخر میں شروع ہو چکی تھی۔ جنوری میں اسلام آباد میں عدم اعتماد کو تحریک دینے والی ملاقاتوں سے پہلے سعودی عرب میں ایک فیصلہ کن سیاستدان کو ہر طرح سے تسلی کرا دی گئی تھی اور شاید عدم اعتماد کے لئے مطلوبہ تعداد بھی جنوری میں ہی پوری کر لی گئی تھی لیکن ق لیگ اور ایم کیو ایم کو شامل نہیں کیا گیا کیونکہ اس طرح عمران خان کے بھڑک اٹھنے کا اندیشہ تھا۔

وزیر اعظم کو حاصل اختیارات اور ان کی افتاد طبع کے پیش نظر منصوبہ بندی بڑے احتیاط سے ہوئی ہے اور تمام اپوزیشن کو بھی شیشے میں اتار لیا گیا لیکن عمران خان بھی تو انہی سازشوں کی پیداوار ہیں۔ تمام تر دباؤ اور تنہائی کے باوجود وہ گاجر اور ڈنڈا اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں عرصہ دراز سے یہ یقین ہے اور اپنے دوستوں سے بھی اظہار کر چکے ہیں کہ ان کا 'مخالف' بہادر نہیں ہے اور میرے علاوہ آپشن بھی کوئی نہیں اس لئے کوئی خطرے کی بات نہیں۔ لیکن اب خطرہ واقعتاً سر پر آن پہنچا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسمبلیاں توڑنا عمران خان کا ہتھیار ہو سکتا ہے تو یقیناً یہ ایک احمقانہ سوچ ہے۔ عمران خان کو پتہ ہے کہ جب تک وہ اقتدار میں ہیں تب تک وہ طاقتور ہیں اور لوگ ان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوں گے اور وزیر اعظم کے عہدے کو جتنا بھی بے آبرو کیا جائے بہرحال کچھ اختیارات اس عہدے میں متمکن ہوتے ہیں۔

ابھی تو عمران خان رات کو کسی کے گھر کھانا کھانے بھی پہنچ جاتے ہیں اور منت و خدمت پر آمادہ ہیں لیکن دوسری طرف انہیں بخوبی علم ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین تب تک ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے جب تک کہ مہربان اسٹیبلشمنٹ ان سے اپنی نظر کرم نہ ہٹا لے۔ اس لئے چاہے وہ اپنی حمایت کی خاطر چوہدریوں کے گھر پہنچیں لیکن ان کی نظر اصل گھر پر ہی ہے۔ اسی لئے ایک طرف تو انٹیلیجنس بیورو متحرک ہو چکا ہے اور دوسری طرف عمران خان سارے بین الاقوامی تعلقات، مفادات اور معاہدوں کو ٹھوکر مار کر پاکستان کو معاشی بحران میں دھکیلنے پر دھمکاتے نظر آتے ہیں۔

عمران خان کو اب بخوبی پتہ ہے کہ ان کے خلاف موجودہ طوفان دراصل کہاں سے اٹھا ہے اور اس کا ہدف کون ہے۔ عمران خان عدم اعتماد کی تحریک کا مقابلہ جس طرح بھی کریں لیکن بطور وزیر اعظم ان کو آسان ہدف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مطلوبہ ممبران کی تعداد پورا کرنے کی بجائے ان کا غور و خوض تین اقدامات پر ہے۔ اول یہ کہ کسی کی مدت ملازمت بڑھا کر اس بحران کو ٹال دیا جائے اور دس سالہ ہائبرڈ نظام کا وعدہ پورا کروایا جائے لیکن یہ کام تو شہباز شریف بھی مستقبل میں سرانجام دے سکتے ہیں۔ بات اگر موجودہ وقت کی ہے تو یہ اختیار عمران کے پاس ہے اور وہ کسی کو گھر بھیج دینے کا اختیار بھی رکھتے ہیں اور یہ خوف بھی پیدا کیے ہوئے ہیں لیکن اس وقت عمران خان کا من پسند اس مسند پر پہنچنے سے قاصر ہے۔ قریبی لوگوں کا خیال ہے کہ ابھی عمران کے رومانس کا شکار اور لوگ بھی ہیں لیکن عمران خان تمام غباروں سے ہوا نکالنے کے لئے ابھی سے نئے چیف کے اعلان پر بھی غور کر سکتے ہیں۔

دوسری طرف بھی لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھے۔ انصاف کے ایوان کو کسی ناگہانی صورتحال سے خبردار کرنے کے ساتھ ساتھ ممبران اسمبلی کو کی گئی کالز کے ثبوت بھی اکٹھے کیے جائیں گے۔ بہرحال تمام تر مشکلات، تنہائی اور مکافات عمل کے باوجود عمران خان بطور وزیر اعظم آج بھی بہتر پوزیشن میں ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ نہ تو یہ 2017 ہے اور نہ 1999 اور نہ ہی وہ نواز شریف ہیں لیکن اپوزیشن خاطر جمع رکھے کیونکہ اس لڑائی میں ان کی فدویانہ سیاست کے باوجود کوئی بھی فاتح نہیں ہوگا۔ اگر اچھی شرائط پر صلح ہو گئی تو اپوزیشن کا حشر دیدنی ہوگا۔ دس سالہ معاہدہ ہائبرڈ کی تجدید سے عمران خان کے پیوٹن یا محمد بن سلمان بننے کے خواب کو پورا ہونے سے روکنا مشکل تر ہو جائے گا۔