خیبر پختونخوا میں ابھی بھی ایسے کئی علاقے موجود ہیں جہاں خواتین کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں اور انہیں ان کے حقوق نہیں ملتے۔ بھاری اکثریت سے منتخب ہو کر ہم نے حکومت بنائی ہے اور میری کوشش ہو گی کہ آئین اور قانون کے مطابق خیبر پختونخوا کی خواتین کو ان کے حقوق دیے جائیں۔ صوبے بھر کی خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے میں اپنا کردار ادا کروں گی۔ یہ کہنا ہے چترال سے خیبر پختونخوا اسمبلی کی رکن اور ڈپٹی سپیکر منتخب ہونے والی ثریا بی بی کا۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں ثریا بی بی کا کہنا تھا کہ میں نے ایک سیاسی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ گھر میں سیاسی موضوعات پر باتیں ہوتی رہتی تھیں اور میں شروع سے یہ باتیں سنتی رہی ہوں۔میرے والد مسلم لیگ کا حصہ تھے اور 16، 17 سال تک ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ سکول کے زمانے سے ہی میرا سیاست سے لگاؤ پیدا ہو گیا اور سکول میں تقریروں سے سیاست کا آغاز کیا۔ جب میں نے موجودہ ملکی اور عالمی مسائل دیکھے اور سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں پر غور کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ موجودہ مسلم لیگ پرانی مسلم لیگ سے بہت مختلف ہے۔ اس وقت صرف عمران خان پاکستان کی درست نمائندگی کر رہے ہیں۔ عمران خان کے وژن کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔
انتخابی مہم سے متعلق سوال کے جواب میں ثریا بی بی کا کہنا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران لوگوں تک پہنچنے میں ہمیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ چترال میں برف باری کے دوران انتخابی مہم کے لیے گھنٹوں تک پیدل چلنا پڑتا تھا۔ دور دراز کے علاقوں میں جا کر ہم نے لوگوں کو قائل کیا کہ وہ تحریک انصاف کو ووٹ دیں۔ مقامی لوگوں نے انتخابی مہم کے دوران ہمیں بہت سپورٹ کیا۔ ہم جہاں جاتے تھے لوگ ہمارے لیے آگ جلاتے تھے، ہمیں گرم پانی دیتے تھے اور ہمیں آگے جانے سے یہ کہتے ہوئے روک دیتے تھے کہ ہمارا پیغام آگے والے لوگوں تک وہ پہنچا دیں گے۔ تمام تر مشکلات کے باوجود لوگ باہر نکلے اور ہمیں ووٹ دیا کیونکہ وہ اس نظام کو تبدیل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
اس سوال کے جواب میں کہ صوبے کی خواتین کے لیے ان کے پاس کیا پروگرام ہے، نومنتخب ڈپٹی سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی نے بتایا کہ ضلع اپر چترال اگرچہ نوزائیدہ ضلع ہے مگر خواتین کی شرح خواندگی کے اعتبار سے پورے صوبے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ ضلع چترال میں خواتین کی شرح خواندگی 62 فیصد ہے۔ یہاں کی خواتین پولیس، نیوی اور دیگر قومی اور نجی اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پر اہم ذمہ داریاں سرانجام دے رہی ہیں۔ تاہم خواتین کے لیے صوبے میں انفراسٹرکچر موجود نہیں ہے۔ اگر پورے صوبے کی بات کی جائے تو اس میں ابھی بھی ایسے بہت سارے علاقے ہیں جہاں خواتین کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ملتی، انہیں ان کے حقوق نہیں ملتے۔ عوام نے ہمیں بھاری اکثریت سے منتخب کیا ہے تو اب میری کوشش ہو گی کہ آئین اور قانون کے مطابق خواتین کو جو حقوق ملنے چاہئیں وہ میں انہیں دلواؤں گی۔ میری سوچ ہے کہ میں خیبر پختونخوا کی خواتین کو بااختیار بناؤں۔ خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے میں اپنا پورا کردار ادا کروں گی۔
ڈپٹی سپیکر کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے انہیں پارٹی کے اندر کتنی لابنگ کرنی پڑی؟ اس سوال کے جواب میں ثریا بی بی کا کہنا تھا کہ اگرچہ مجھے یہ عہدہ ملنے کی امید ضرور تھی مگر مجھے پارٹی کے اندر کوئی لابنگ نہیں کرنی پڑی۔ ایسا اس وجہ سے ہے کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ عمران خان بہترین لیڈر ہیں اور ہمیشہ انہوں نے خواتین کو عزت دی ہے۔ ہمارے علاقے سے میں تیسری خاتون ہوں جسے عمران خان نے ایوان کی نمائندگی کا موقع دیا ہے۔ اس کے بعد مجھے ووٹ اپنی محنت کی وجہ سے بھی ملا ہے۔ ہم نے سخت محنت کی اور گھر گھر جا کر عمران خان کا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ ثریا بی بی کا مزید کہنا تھا کہ ان کے حلقے کی خواتین تحریک انصاف کے پیغام سے بہت متاثر ہوئیں اور انہیں سب سے زیادہ حمایت خواتین ہی کی جانب سے ملی ہے۔