فوڈ کمپنی کا رائڈر حادثے کے وقت کسی کو نہ بلا سکا کیونکہ صارف نے گارنٹی کے طور پر فون رکھ لیا تھا

فوڈ کمپنی کا رائڈر حادثے کے وقت کسی کو نہ بلا سکا کیونکہ صارف نے گارنٹی کے طور پر فون رکھ لیا تھا
گذشتہ دنوں کراچی میں ایک نجی فوڈ کمپنی کے رائڈر کی اس وقت موت ہو گئی جب یہ بیچارا کلفٹن میں تین تلوار کے قریب واقع ایک بلڈنگ سے باہر جانے کی کوشش میں لفٹ میں پاؤں رکھنے لگا لیکن لفٹ اب تک آئی ہی نہیں تھی۔ راجہ نوید نے بے دھیانی میں خلا میں پاؤں رکھا اور نیچے جا گرا۔ افسوسناک پہلو یہ تھا کہ اس کے پاس کسی کو اس ایمرجنسی میں کال ملانے کے لئے اپنا فون بھی نہ تھا کیونکہ موبائل فون اس صارف نے گارنٹی کے طور پر رکھ لیا تھا جس نے اسے 5000 روپے دے کر بقیہ رقم کا چینج لینے کے لئے بھیجا تھا۔ اسی کے ایک ساتھی نے اس کو فون کیا اور اس کے فون کی لوکیشن چیک کی تو اس تک پہنچ سکا۔

یہ واقعہ ٹوئٹر صارف عمار خان نے ٹوئٹر پر بیان کیا۔ ان کے مطابق اس واقعے میں ایک قیمتی جان کے ضائع ہونے کی ذمہ داری ایک طرف تو بدانتظامی ہے لیکن دوسری طرف وہ بے شرم لوگ بھی جنہوں نے گارنٹی کے طور پر ایک شخص کا فون ہی اپنے پاس رکھ لیا۔ لوگ تو اس پر بھی کہیں گے کہ موت کا کوئی نہ کوئی سبب بننا ہوتا ہے وگرنہ ہر صارف موبائل فون اپنے پاس نہیں رکھتا اور ہر بار ایسی بدانتظامی بھی دیکھنے میں نہیں آتی۔ عموماً ان رائڈرز کے پاس اگر 5000 کا چینج نہ ہو تو وہ بتا دیتے ہیں اور اگر صارف نے خصوصی طور پر ایسی ہدایات دے رکھی ہوں تو چینج ساتھ کہیں سے انتظام کر کے لے آتے ہیں۔ یہ افطاری کا وقت تھا۔ شاید اس بیچارے نے بھی یہی سوچا کہ اپنا فون رکھوا کر چینج لے آؤں گا لیکن موت اسی لمحے کا انتظار کر رہی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں بہت سے دیگر عوامل بھی کار فرما ہیں۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ رائڈرز بیچارے انتہائی مشکل صورتحال میں اپنی نوکری کر رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ایک رائیڈ کے تقریباً 30 روپے رائڈر کو ملتے ہیں اور اس کے بدلے میں انہیں ایک وقت دیا جاتا ہے جس کے اندر اندر انہیں یہ ڈلیوری کرنا ہوتی ہے۔ اس میں دیری بھی ہو سکتی ہے۔ کبھی جس ریستوران کو کھانے کا آرڈر دیا گیا ہے وہاں سے دیر ہو جاتی ہے، کبھی ٹریفک کی صورتحال حالات کو نامساعد بناتی ہے تو کبھی ایک ساتھ ایک سے زیادہ آرڈرز ہونے کی صورت میں بھی دیر ہو جاتی ہے۔ گاہک لیکن ان تمام مسائل کی پروا نہیں کرتے۔ ان کی مشکل صورتحال کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جس نے زندگی میں کبھی مزدوری کر رکھی ہو۔ ان ایپس سے آرڈر کرنے والے لوگ عموماً مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے، دفتروں میں کام کرنے والے یا ان کے بچے ہوتے ہیں جو اس قسم کی ملازمت میں سامنے آنے والے مسائل کا ادراک ہی نہیں رکھتے۔

دوسری طرف یہ کمپنیاں جو ان رائڈرز کو نوکری پر رکھتی ہیں یہ کسی قسم کی کوشش تک نہیں کرتیں کہ ان کی کوئی لائف انشورنس وغیرہ کا انتظام کیا جا سکے۔ موٹر سائیکل کو دنیا بھر میں ایک غیر محفوظ سواری تصور کیا جاتا ہے۔ یہ رائڈرز ایک جگہ سے دوسری جگہ دیے گئے وقت میں کھانا ڈلیور کرنے کی کوشش میں طوفانی انداز میں بائیک نہ چلائیں تو انہیں دیر ہو جائے۔ کوئی حادثہ ہو جائے تو ان کے بیوی بچوں کو پوچھنے والا بھی کوئی نہیں رہتا۔ اس بدنصیب شخص کے خاندان کو بھی کمپنی نے محض ایک لاکھ روپے دے کر فارغ کر دیا جب کہ ایک نجی گروپ نے عوام سے چھ لاکھ روپے اکٹھے کر کے اس شخص کے خاندان کو دیے۔

دنیا بھر میں اس قسم کی نوکریاں کرنے والے افراد کے لئے بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے ایک مہم جاری ہے۔ حال ہی میں برطانیہ میں ایک پاکستانی اوبر ڈرائیور نے کمپنی کے خلاف یہ مقدمہ جیتا کہ اوبر ڈرائیورز کو وہ تمام حقوق دیے جائیں جو ایک عام نوکری پیشہ فرد کو حاصل ہیں۔ ان پر کم از کم اجرت کا قانون لاگو ہونا چاہیے، بیماری کی صورت میں چھٹی کرنے پر ان کی تنخواہ نہیں کٹنی چاہیے اور انہیں یونین سازی کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ یہ کیس اوبر کے ڈرائیورز نے مارچ 2021 میں جیتا جس کے بعد برطانیہ میں 70 ہزار ڈرائیورز کو اب یہ تمام سہولیات میسر ہوں گی۔

عمار خان لکھتے ہیں کہ پاکستان میں بھی ان کمپنیوں کو اپنے ملازمین کے ساتھ یہ بے رحمانہ رویہ ترک کرنا ہوگا۔ ہمیں ایسی قانون سازی کرنا ہوگی کہ اس معیشت جس سے اب پاکستان میں بھی ہزاروں گھرانے جڑے ہیں میں موجود ملازمین کو ان کے حقوق دیے جا سکیں۔ انہیں ہیلتھ انشورنس دی جا سکے۔ لائف انشورنس دی جا سکے۔ اور ان کی اجرت بہتر کی جا سکے۔ یہاں کئی انسانی زندگیاں ہیں جو داؤ پر لگی ہیں اور ان کے لئے صحت اور زندگی کی بہتر سہولیات کا مطالبہ نہ کر کے، ہر اس آرڈر کے لئے جو آپ ان ایپس کے ذریعے دے رہے ہیں، اس بے رحمانہ سلوک میں آپ کو بھی حصہ دار بنا رہا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے کے اس پستے ہوئے طبقے کے لئے سب آواز نہیں اٹھاتے تو ہم سب ہی اس رویے کے لئے بھی ذمہ دار ہیں۔