سب کے خلاف سب کی جنگ

سب کے خلاف سب کی جنگ
سترہویں صدی عیسوی کے برطانوی فلسفی تھامس ہوبز کو جدید سیاسی اور ریاستی فلسفے کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ ہوبز کی لیوائیتھن (Leviathan) نامی شہرہ آفاق تصنیف 1651 میں شائع ہوئی۔ لیوائتھن سے مراد افسانوی سمندری عفریت ہے، جس کا ذکر بنی اسرائیل کی قدیم کتابوں اور تورات میں ملتا ہے۔ لاطینی زبان میں لکھی اس کتاب کے ایک جملے“Bellum omnium contra omnes” نے بے انتہا شہرت پائی۔ اس کا سلیس اردو ترجمہ ہے "سب کے خلاف سب کی جنگ"۔ آئیڈیلزم کے برعکس، ہوبز کے یہاں دنیا کا تصور ایک ایسے خطے کا ہے جس کا وجود فطری طور پر انتشاراور تشدد کو جنم دیتا ہے۔ ہوبز کا ماننا ہے کہ دنیا ایک پر تشدد اور آفت زدہ مقام ہے۔ اس میں بسنے والے افراد اور گروہ، فطری طور پر مفاد پرست، اور اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کی جستجو میں ایک دوسرے کے ساتھ ناتمام جنگ میں مبتلا ہیں۔



ہوبز کے مطابق افراد یا گروہ کے تخلیق کردہ اچھائی اور بدی کے تصورات سطحی اور فروعی ہیں، کیونکہ کائنات میں موجود ہر مادی شے کی طرح افراد اور ان کے تصورات بھی مسلسل گردش میں ہیں۔ انسانی سوچ کا دائرہ مادیت کی سمجھ بوجھ تک محدود ہے۔ نتیجتاً اچھائی اوربدی جیسے غیر مادی تصورات انسانی فہم و فراست سے بالا تر ہیں۔ غیر مادی تصورات کی جہتوں کے تعین کا دارومدار افراد اور ان کے گروہ کے عارضی مادی تصورات اور مفادات پر مبنی ہے۔ دوسرے لفظوں میں غیر مادی تصورات، زمان و مقام کے مد و جزر اور اس میں بسنے والے افراد کی مادیت کے حصول اور پرستش سے پھوٹتے ہیں۔ لہٰذا جس بستی میں متعدد افراد یا گروہ اچھائی اور بدی کے جداگانہ غیر مادی تصورات اور ان سے جڑے مادی مفادات کے حصول کیلئے مد مقابل ہوں، وہ معاشرہ تشدد کی شکست و ریخت کا شکار ہو کر بالآخر خانہ جنگی کے نتجے میں تباہ ہو جاتا ہے۔

ہوبز کے دنیاوی تصور کی اتنشاری اور متشدد فطرت کے پیچھے افراد اور ان کے گروہ کے یہی عارضی، متصادم اور مادی مفادات کار فرما ہیں، جن کے حصول کیلئے وہ غیر مادی اچھائی اور بدی کے پیمانے ترتیب دے کر پورے معاشرے پر اس کا اطلاق چاہتے ہیں۔ مادیت کے مفادات اور غیر مادیت کے متصادم تصورات سے پھوٹتا یہ تصادم، معاشرے کو بہت جلد اس مقام پر لے آتا ہے جہاں اس کا ہر فرد دوسرے کے ساتھ اپنی بقا کی جنگ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ چنانچہ انتشاری معاشرے میں بسنے والا ہر فرد اپنے تحفظ کی خاطر تشدد کا راستہ اختیار کرنے کا پیدائشی حق رکھتا ہے۔ اپنے نام کی مناسبت سے ہوبز معاشرے کی اس کیفیت کو "Hobbesian Trap" یعنی شکنجِہ ہوبز کا نام دیتا ہے۔ شکنجِہ ہوبز میں جکڑے معاشرے میں صنعت و تجارت اپنا وجود کھو دیتی ہیں، ثقافت پنپ نہیں سکتی اور علم کی ترسیل منطقع ہو جاتی ہے۔ وقت، تہذیب، مواصلات، فنون لطیفہ اور معاشرت کے تصورات دھندلا کر زائل ہو جاتے ہیں۔ بدترین، پرتشدد موت کے مسلسل خوف اور خطرے سے انسان کی مختصر زندگی غربت، بے چینی، تنہائی اورسفاکی سے عبارت ہوتی ہے۔
شکنجہ ہوبز سے آزادی کا یہ فطری تقاضا ہے کہ انتشار زدہ معاشرے کا ہر فرد اپنے گروہی اور انفرادی مفادات کے تحفظ کو پس پشت ڈال کر ایک عمرانی معاہدے کے تحت اس مرکزی قوت کی تشدد اور قوت کے استعمال پر اجارہ داری کو قبول کرے۔ ہوبز اس مرکزی قوت کو لیوائیتھن نامی افسانوی عفریت سے تشبیہہ دیتے ہوئے ریاست کا نام دیتا ہے

ہوبز کے شکنجے میں مقید معاشرہ اور اس کے گرد گھیرا تنگ کرتا پر تشدد موت کا خوف، بستی کے باسیوں کو اس مصلحت پر مجبور کرتا ہے کہ وہ سکون اور امن کے حصول کیلئے تشدد کے انفرادی حق سے رضاکارانہ دستبرداری اختیار کرتے ہوئے ایک مرکزی قوت کی اطاعت قبول کریں۔ شکنجہ ہوبز سے آزادی کا یہ فطری تقاضا ہے کہ انتشار زدہ معاشرے کا ہر فرد اپنے گروہی اور انفرادی مفادات کے تحفظ کو پس پشت ڈال کر ایک عمرانی معاہدے کے تحت اس مرکزی قوت کی تشدد اور قوت کے استعمال پر اجارہ داری کو قبول کرے۔ ہوبز اس مرکزی قوت کو لیوائیتھن نامی افسانوی عفریت سے تشبیہہ دیتے ہوئے ریاست کا نام دیتا ہے، جس کے اندر بادشاہت، جمہوریت یا طبقہ اشرفیہ کی جائز اور قانونی حکومت عمرانی معاہدے کے تحت تشدد پر اپنی اجارہ داری قائم کر کے انتشار زدہ بستی میں معاشرت اور تہذیب کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے، عوام کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔



ہوبز کے فلسفے کو آگے بڑھاتے ہوئے جرمن فلسفی میکس ویبر تشدد پر ریاستی اجارہ داری کی حمایت میں دلائل دیتے ہوئے کہتا ہے کہ جدید ریاست میں عوام الناس کی قانون کی پاسداری کو یقینی بنانے کیلئے یہ بنیادی اور ناگزیر حیثیت رکھتی ہے۔ ریاست کو اپنی عملداری، مؤثریت، عوام الناس کی بہبود، معاشرت کی بقا اور اپنے وجود کی قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے کیلئے تشدد اور قوت کے استعمال پر ریاستی اجارہ داری قائم رکھنا لازم و ملزوم ہے۔ تشدد پر ریاستی حکومت کا یہ خصوصی حق اس کو یہ جواز فراہم کرتا ہے کہ وہ یہ اختیار اپنی جانب سے اپنے ذیلی اداروں کو تقویض کرے۔ لہٰذا ریاست کی قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے کیلئے یہ لازم ہے کہ جب کوئی غیر ریاستی عنصر، سرکش گروہ، دہشت گرد یا عسکری اداروں کے باغی عناصر، حکومتی رٹ کو للکاریں تو ان کی بیخ کنی اور معاشرت کی بقا کیلئے کارروائی کرے۔

مندرجہ بالا فلسفیانہ تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ مملکت خداد پاکستان میں بڑھتے ہوئے انتشار، معاشرتی تقسیم اور کمزور ہوتی ریاستی عملداری کا احاطہ کیا جا سکے۔ آسیہ بی بی کی رہائی، ختم نبوتؐ، ممتاز قادری کی پھانسی جیسے معاملات کے رد عمل میں پر تشدد فسادات موجودہ حکمران جماعت کی سابقہ حکومت کے دور میں دھرنا سیاست، پر تشدد احتجاج، حکومتی اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بلوے اس بات کی دلیل ہیں کہ ریاست پاکستان کا معاشرہ شکنجہ ہوبز میں جکڑا ہوا ہے۔ سرکش عسکری جتھے اور جہادی گروہ، ریاستی اداروں کی کمزوریاں، معاشرے میں پھیلی عدم برداشت، بڑھتا ہوا تشدد اور فرقہ واریت کا پھیلا ہوا زہر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ریاست، افراد اور ان کے گروہ کے مادی مفادات کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے۔ معاشرے میں پھیلتا ہوا یہ انتشار افراد اور گروہوں کے کفر اور ایمان، اچھائی و برائی، نیکی اور بدی جیسے غیر مادی متصادم تصورات سے جنم لے کر ساری ریاست کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ دہشتگرد اور عسکری ادارے، دونوں ایک دوسرے کے خلاف اللہُ اکبر کا نعرہ بلند کر کے بر سر پیکار ہیں۔ فرقہ واریت کا زہر پھیلاتی نام نہاد مذہبی جماعتیں اپنے اپنے مادی مفادات کے تحفظ میں، نیکی اور بدی کے پیمانے ترتیب دیتے ہوئے کفر اور قتل کے فتوے بانٹ رہی ہیں۔
پاکستان کی پہلی کابینہ کے کشمیر پر فوج کشی کے حکم کو انگریز سپہ سالار نے ماننے سے انکار کیا اور حکومت وقت نے پشتون عسکری جتھوں کی مدد سے کشمیر پر لشکر کشی کروائی۔ اس واقعہ نے ریاستی اداروں کی سر کشی اور تشدد کی نجکاری کی بنیاد رکھی۔

ریاست پاکستان کے معاشرے میں شدت کا عنصر آزادی کے وقت سے ہی غالب ہے۔ برصغیر کی غیر منصفانہ، منصوبہ بندی سے عاری اور عجلت پر مبنی تقسیم کے بطن سے پھوٹتے انتشار نے پنجاب سے بنگال تک زمین کو خون سے لال کر دیا تھا۔ پاکستان کی پہلی کابینہ کے کشمیر پر فوج کشی کے حکم کو انگریز سپہ سالار نے ماننے سے انکار کیا اور حکومت وقت نے پشتون عسکری جتھوں کی مدد سے کشمیر پر لشکر کشی کروائی۔ اس واقعہ نے ریاستی اداروں کی سر کشی اور تشدد کی نجکاری کی بنیاد رکھی۔ ملائیت کے خوف اور ڈر سے قرارداد مقاصد کی منظوری نے پارلیمان کے حق قانون سازی پر ایسی قدغن لگائی، جس کا خمیازہ آج تک ریاست بھگت رہی ہے۔



نومولود ریاست کے ابتدائی دنوں میں حکومت کے ذیلی اداروں کی سرکشی کی روایت پڑی، جس نے بابو شاہی اور فوجی اشرفیہ کے اتحاد کو جنم دیا اور ریاست پاکستان کے اندر متوازی ریاست کی داغ بیل ڈالی۔ حکومت کے ذیلی اور ماتحت ادارے، فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ دار بن گئے اور حکومت  کی عملداری اور حق حکمرانی کو شدید نقصان پہنچایا۔ حب الوطنی اور بدعنوانی کے تصورات کو قومی نفسیات میں پیوند کر کے 1958 میں افواج پاکستان کے جرنیل ایوب خان نے منتخب حکومت کا تختہ الٹا اور ایسی بدعت کی بنیاد رکھی جس کے بطن سے طویل آمریتوں نے جنم لیا۔ ایوب خان کے دور حکومت میں بڑھتی ہوئی معاشرتی اور معاشی نا انصافیوں نے مشرقی پاکستان کی عوام کو دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھ دیا اور ریاست سے متنفر کیا۔ 70 کے انتخابات کے نتائج نے ریاست پاکستان کی سالمیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا۔ بنگال پر فوجی لشکر کشی کے دوران شدت کی نجکاری کی بھیانک شکل سامنے آئی جب افواج کے علاوہ، البدر، الشمس اور مکتی باہنی کے غیر ریاستی عناصر نے بد ترین جنگی جرائم کا ارتکاب کیا۔

ریاست کے دو لخت ہونے کے المناک باب سے لیکن ہم نے کچھ سبق نہ سیکھا۔ 70 کی دہائی کے اواخر میں، بچے کھچے پاکستان میں ضیاالحق کی آمریت نے تشدد کی نجکاری کی نئی جہتوں کی بنیاد رکھی۔ نتیجتاً فلسفہ جہاد اور اسلامی معاشرے کی تشکیل کے نام پر وسیع پیمانے پر تشدد قومی مزاج میں سرایت کرتا گیا۔ 80 میں اس انتشار اور تشدد کی جڑیں گہری اور مظبوط ہوتی چلی گئیں اور 1990 تک جہاد ہماری شناخت اور سب سے بڑی برآمدی جنس بن چکا تھا۔ دنیا جہان سے بھانت بھانت کے وحشی، اجرتی قاتل اور شدت پسند ہم نے "جہاد فی سبیل اللہ" کی نیکی کے نام پر، سوؤیت یونین کے کیمونسٹ ’دہریوں‘ کیخلاف اکٹھے کیے۔ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں سمیت سب سے ڈالر اینٹھے۔ تشدد کی نجکاری نے جنگی معیشت کی بنیاد رکھی اور پاکستانی معاشرت اسلحہ، منشیات، جرائم اور قتل و غارت گری سے الاؤ کی طرح دہک اٹھی۔
سنہ 99 میں پاکستان کے سپہ سالار پرویز مشرف نے کشمیر فتح کرنے کی ترنگ میں آ کر تمام بین الاقوامی سفارتی اور قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر حکومت وقت کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے کارگل پر چڑھائی کر دی۔ پاکستان کی بلا جواز فوجی مہم جوئی اور اشتعال انگیزی نے ہماری سفارتی ساکھ، ریاستی شہرت اور کشمیر پر مؤقف کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں "Rogue Army" یعنی بدمعاش فوج کی سرخیاں لگیں۔

1990 تک ہماری تشدد پسند قومی ذہنیت پختہ ہو چکی تھی اور پھر جہادی جتھوں کو بین الاقوامی سطح پر پھیلانے کے کار عظیم کی ابتدا ہوئی۔ فلسطین، کشمیر، چیچنیا، افغانستان حتیٰ کہ دوست ملک چین تک ہمارے جہادی گروہ اپنی انتشاری عظمت کے ساتھ وطن عزیز کا نام روشن کرنے پہنچے۔ ریاست کے مقتدر ترین عسکری ادارے اپنے مشغلے جہاد کے ساتھ ساتھ سیاسی انتشار پھیلانے میں بھی مشغول رہے۔ کبھی اسلامی جمہوری اتحاد کی وساطت اور کبھی "سیکورٹی رسک"، بد عنوانی اور وسیع تر قومی مفاد کے نام پر منتخب حکومتوں کے بوریا بستر گول کیے گئے۔



سنہ 99 میں پاکستان کے سپہ سالار پرویز مشرف نے کشمیر فتح کرنے کی ترنگ میں آ کر تمام بین الاقوامی سفارتی اور قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر حکومت وقت کو اندھیرے میں رکھتے ہوئے کارگل پر چڑھائی کر دی۔ پاکستان کی بلا جواز فوجی مہم جوئی اور اشتعال انگیزی نے ہماری سفارتی ساکھ، ریاستی شہرت اور کشمیر پر مؤقف کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں "Rogue Army" یعنی بدمعاش فوج کی سرخیاں لگیں۔ جب حکومت کے وقت کے منتخب وزیراعظم نے اپنا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے پرویز مشرف کو برخاست کرنے کی کوشش کی، تو موصوف نے حکومت وقت کا ہی تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اپنی حلف اور آئین شکنی کو ملکی سالمیت اور اداروں کی حرمت جیسے تصورات میں لپیٹ کر عوام کو "سب سے پہلے پاکستان" کا نعرہ دیا۔

پرویز مشرف کے نو سالہ آمرانہ دور میں امریکہ کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران "روشن خیالی" کی درفنطنی چھوڑی گئی۔ صوفیت کے نام پر دیوبند مسلک کی سر پرستی چھوڑ کر بریلوی مکتبہ فکر کو پروان چڑھانا شروع کیا۔ جس سے تکفیری سوچ بریلوی مسلک میں بھی گھر کر گئی۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ نے ریاست اور اس کے نجی تشدد پسند عسکری جتھوں اور جہادی لشکروں کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا۔ گلی گلی، محلے محلے کشت و خون کا بازار گرم ہو گیا۔ مساجد، بازار، مدرسے، سکول، عسکری تنصیبات، چرچ، مزار، امام بارگاہیں، ہسپتال، قانون نافذ کرنے والا ادارے غرضیکہ سارا ملک خود کش دھماکوں کی گونج سے لرز اٹھا۔

غداری و حب الوطنی، کفر و ایمان، جہاد و قتال اور قومی مفاد و سلامتی جیسے غیر مادی تصورات سے پھوٹتے مفادات پر مبنی متصادم نظریات نے قوم کو دس سال تک الجھن کا شکار رکھا اور قبائلی علاقوں پر قابض لشکری جتھے قومی سلامتی پر حملہ آور ہوتے رہے۔ لیکن اجتماعی قومی ضمیر ان کو اپنے بھٹکے ہوئے بھائی کہنے پر بضد رہا۔ سابقہ دور حکومت میں سانحہ آرمی پبلک سکول کی ہولناک دہشتگردی نے قومی ضمیر کو جھنجھوڑا اور تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کے آغاز کے لئے قوم یکجا ہوئی۔



گذشتہ پانچ سالوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اپوزیشن میں بیٹھی موجودہ حکومتی جماعت نے دھاندلی کی افسانوی کہانیاں پھیلا کر حکومتی رٹ کو للکارتے ہوئے ریاستی اداروں پر حملے کیے اور مہینوں دارالحکومت کو یرغمال بنائے رکھا۔ موجودہ وزیراعظم صاحب نے اپنی ہوس اقتدار کی تشنگی کیلئے ہر انتشاری ہتھکنڈا استعمال کیا۔ غداری، توہین رسالتؐ، ختم نبوتؐ، بد عنوانی، اور قومی غیرت جیسے غیر مادی نظریات کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہوئے اپنے سیاسی مفادات کی آبیاری کی۔ جب بھی موقعہ ملا دارالحکومت پر چڑھ دوڑے اور سر عام سارے ملک میں آگ لگانے کی دھمکیاں دیتے رہے۔ موصوف ساری ریاست کو خاکستر کرنے کو تیار تھے، چاہے مسند اقتدار راکھ کے ڈھیر پر ہی کیوں نہ سجانی پڑے۔
گذشتہ دور حکومت میں "ڈان لیکس" کے واقعہ نے حکومتی اور عسکری ہم آہنگی کی قلعی کھول دی۔ مقتدر ادارے جہاں سرکش جہادی عناصر کی بیخ کنی میں مصروف تھے وہیں لاڈلے عسکری لشکروں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے زور و شور سے کام بھی جاری تھا۔

دوسری طرف مسلم لیگ نون کی منتخب حکومت اور مقتدر اداروں کے درمیان پالیسی سازی کے ٹکراؤ نے ایک نئے انتشار کو جنم دیا۔ جس میں تحریک انصاف نے اداروں کی معاونت کرتے ہوئے منتخب حکومت کی عملداری اور مؤثریت کو معدوم کر کے رکھ دیا۔ گذشتہ دور حکومت میں "ڈان لیکس" کے واقعہ نے حکومتی اور عسکری ہم آہنگی کی قلعی کھول دی۔ مقتدر ادارے جہاں سرکش جہادی عناصر کی بیخ کنی میں مصروف تھے وہیں لاڈلے عسکری لشکروں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے زور و شور سے کام بھی جاری تھا۔ مولوی خادم حسین رضوی کی قیادت میں اٹھے، ختم نبوتؐ اور توہین رسالتؐ کی آڑ میں چھپے، حالیہ فتنے مقتدر اداروں کی اسی حکمت عملی کا پھل ہیں۔



بریلوی تکفیریت، دیو بندی تکفیری سوچ کے مقابلے میں نہایت قلیل مدت میں ریاست کے خلاف کھڑی ہو چکی ہے۔ آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے کے بعد چند گھنٹوں کے اندر سارے ملک میں مولوی خادم حسین رضوی اور ہمنوا کی جماعت نے دھرنے دیے اور جلاؤ گھیراؤ کر کے نظام زندگی اور مواصلات کو مفلوج کر دیا۔ چوکوں چوراہوں میں بیٹھ کر لاؤڈ سپیکر پر اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پر قتل کے فتوے صادر کیے گئے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ کے ایمان پر سوالات اٹھا کر افواج پاکستان کو ان کے خلاف بغاوت پر اکسایا گیا۔ توہین رسالتؐ کے نام پر جج اور جرنیل حضرات کو ڈرائیوروں، سکیورٹی گارڈوں اور خانساماؤں کے ہاتھوں قتل کروانے کی دھمکیاں سوشل میڈیا پر نشر کی گئیں۔ ریاست تصویر مظلومیت بنی اس فتنے کے آگے بے بس نظر آئی۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں تحریک لبیک کو اتنی افرادی قوت، تنظیم اور وسائل حاصل کیسے ہوئے؟
تشدد کی نجکاری کی بدولت، ایک اندازہ کے مطابق اس وقت پاکستان کے طول و عرض میں دس لاکھ کے قریب غیر ریاستی گوریلا جنگجو پھیلے ہوئے ہیں جن کا خمیر شدت پسندی اور جنونیت سے کشید کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان شدت پسندوں نے اس تنزل پذیر ریاست اور اس کی معدوم ہوتی عملداری کے خلاف سر اٹھا لیا تو کیا نتیجہ نکلے گا؟

پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کا احاطہ اور توہین رسالتؐ جیسے نازک مسئلے پر گذشتہ چند دنوں میں پھیلتی ہوئی تکفیری فتنے کی آگ اس نقطے کو تقویت دیتی ہے کہ ریاست پاکستان اپنی ولادت سے آج تک شکنجہ ہوبز میں جکڑی ہوئی ہے۔ اس کی معاشرت ہوبز کی کھینچی ہوئی آفت زدہ، انتشاری دنیا کی بہترین یا شاید بد ترین مثال ہے۔ تشدد کی نجکاری کی بدولت، ایک اندازہ کے مطابق اس وقت پاکستان کے طول و عرض میں دس لاکھ کے قریب غیر ریاستی گوریلا جنگجو پھیلے ہوئے ہیں جن کا خمیر شدت پسندی اور جنونیت سے کشید کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان شدت پسندوں نے اس تنزل پذیر ریاست اور اس کی معدوم ہوتی عملداری کے خلاف سر اٹھا لیا تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ اس کا جواب ہوبز کے فلسفہ تشدد اور ریاست میں واضح طور پر موجود ہے۔

کفر کے فتوے بانٹتے بھانت بھانت کے تکفیری، ہر قسم کے اسلحے، تربیت، سرمائے اور وسائل سے لیس لشکری جتھے منتخب حکومتوں کے خلاف بر سرپیکار مقتدر اداروں کے سرکش عناصر، پنچایت اور جرگے کی متوازی عدالتیں، بڑھتی ہوئی معاشرتی تقسیم، سیاستدانوں، صحافیوں، فنکاروں، دانشوروں اور سماجی کارکنان پر قاتلانہ حملے، بانجھ پن کا شکار تعلیمی نظام اور تشدد کی اجارہ داری پر بتدریج معدوم ہوتی ریاستی گرفت اور عملداری۔ یہ تمام نشانیاں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ ریاست پاکستان میں ہر فرد اور گروہ دوسرے کیخلاف اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کی جستجو میں برسر پیکار ایک ناتمام جنگ میں مبتلا ہے۔

ان حالات کے تناظر میں یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ شکنجہ ہوبز پاکستانی معاشرت کے گرد اپنا گھیرا دن بدن تنگ کرتا جا رہا ہے۔ قوم کی معاشی ابتری سے صنعت و تجارت اپنا وجود کھو رہی ہے۔ ثقافت، صحافت، سیاست، فنون لطیفہ، تہذیب و تمدن اور علم کی ترسیل پر تکفیریت کے فتؤوں کے خوفناک سائے منڈلا رہے ہیں۔ جلاؤ، گھیراؤ، پرتشدد احتجاج اور ہنگامے مواصلاتی نظام کو درہم برہم کرتے، نظام حکومت اور زندگی کو جب چاہے مفلوج کر دیتے ہیں۔ تو کیا یہ کہنا غلط ہو گا کہ آج ایک عام پاکستانی کی زندگی بدترین، پرتشدد موت کے مسلسل خوف اور خطرے سے دوچار، غربت، بے چینی، تنہائی اورسفاکی سے عبارت ہوتی ہے۔ اچھائی اور بدی کے جداگانہ غیر مادی تصورات اور ان سے جڑے مادی مفادات کے حصول کیلئے مد مقابل یہ گروہ معاشرے کو بد ترین شکست و ریخت سے دو چار کر چکے ہیں، جس کا انجام خانہ جنگی کے تنیجے میں مکمل تباہی ہے۔ ہوبز اس جنگی معرکے کو "Bellum omnium contra omnes" یعنی "سب کے خلاف سب کی جنگ" کا نام دیتا ہے۔

عدنان حفیظ، گرفتھ یونیورسٹی آسٹریلیا کے طالبعلم ہیں، اور پولیٹیکل اکانومی کے شعبے میں ریسرچ کر رہے ہیں - انگریزی روزنامہ ڈیلی ٹائمز کیلئے بھی لکھتے ہیں - عدنان کی تحقیقی دلچسپیوں میں دنیا کی اقتصادی تاریخ ، معیشت، تجارت اور بین الاقوامی تعلقات کے باہمی اثرونفوذ، فلسفہ، اقتصادی گلوبلائزیشن اور اسکے غربت، دولت کی تقسیم اور معاشی بحران پر اثرات وغیرہ شامل ہیں-