نیب ترمیمی آرڈیننس میں میری مشاورت شامل نہیں تھی، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان

نیب ترمیمی آرڈیننس میں میری مشاورت شامل نہیں تھی، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان
اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر خالد جاوید خان کا کہنا ہے کہ چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار صدر کو دینے سے تنازع ہوگا جو غیر ضروری ہو گا۔

نیب کے ترمیمی آرڈیننس سے متعلق بات کرتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر خالد جاوید نے کہا کہ صدر مملکت کو اگر چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار دیا گیا تو وہ بھی اس میں ملوث ہو جائیں گے اور ایسے میں کچھ قانونی مسائل بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل بہتر فورم ہے۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ نیب ترمیمی آرڈیننس میں میری مشاورت شامل نہیں تھی۔ جبکہ دوسری جانب اس حوالے سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ بحث کے دوران اٹارنی جنرل چئیرمین نیب کی تبدیلی کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کو اختیار دینے کے حق میں تھے ، تاہم اس میں ایک قانونی مسئلہ تھا اور وہ یہ تھا کہ اس کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت تھی ، لیکن ہمارے پاس دو تہائی اکثریت نہیں اس لیے صدر کے علاوہ کوئی اور باڈی نہیں تھی۔

یاد رہے کہ یکم نومبر کو نیب آرڈیننس میں دوبارہ ترمیم کے بعد وفاقی حکومت نے نیا آرڈیننس جاری کر دیا۔ صدر پاکستان کی منظوری کے بعد تیسرا نیب ترمیمی آرڈیننس جاری کیا گیا۔ نئے ترمیمی آرڈیننس کے تحت چئیرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار صدر مملک کو مل گیا ہے۔ اس آرڈیننس کے مطابق نیب آرڈیننس کے تحت چئیرمین کی مدت ملازمت 4 سال ہو گی۔ چئیرمین نیب کو عہدے سے ہٹانے کا اختیار صرف صدر مملکت کو ہو گا۔

چئیرمین نیب کو ہٹانے کے لیے وہی بنیاد ہو گی جو سپریم کورٹ کے جج کے لیے ہوتی ہے۔ الیکٹرانک ڈیوائسز کی تنصیب تک پُرانے طریقے سے شہادتیں قلمبند کی جائیں گی۔ ترمیمی آرڈیننس کے مطابق چھ اکتوبر سے پہلے کے فراڈ کے تمام مقدمات نیب سن سکے گا۔آرڈیننس کے تحت عوام الناس سے دھوکہ اور فراڈ کیسز واپس نیب کے حوالے کر دیے گئے ہیں اور مضاربہ کیسز، فراڈ اور دھوکہ دہی کے کیسز کو 6 اکتوبر سے پہلے کی پوزیشن پر بحال کردیا گیا ہے، جس کے بعد نیب اور احتساب عدالتوں کو فراڈ کیسز پر کاروائی کا اختیار دے دیا گیا۔ آرڈیننس کا اطلاق بھی چھ اکتوبر سے ہو گا۔آرڈیننس کچھ دیر بعد احتساب عدالت اسلام آباد میں پیش کیا جائے گا۔