سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے قومی اسمبلی اور سینیٹ ممبران پر مشتمل قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔ اس میں عسکری حکام افغانستان کی صورتحال سمیت ملک کے اندرونی سیکیورٹی اور مبینہ طور پر تحریک لبیک کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر بریفنگ دینگے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں تحریک لبیک کیساتھ کئے گئے معاہدے پر دو ٹوک موقف اپنائیں گی؟
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی اجلاس میں شرکت کرینگے۔
اجلاس میں حکمران جماعت کے وزیروں سمیت سلامتی امور کے مشیر معید یوسف اور اپوزیشن رہنما شرکت کرینگے۔ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب اور پیپلز پارٹی سمیت جمعیت علمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی نے تصدیق کی ہے کہ وہ اجلاس میں شرکت کرینگے۔
مریم اورنگزیب کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سمیت دیگر قائدین اس اجلاس میں شرکت کرینگے۔
حال ہی میں کالعدم تنظیم تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ کئے گئے خفیہ معاہدے پر کیا بات ہوگی پر نیا دور میڈیا نے مختلف پارٹیوں کا موقف لیا ہے۔
نیا دور میڈیا نے براہ راست سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور مذہبی امور کے وزیر پیر نور الحق قادری سے تحریک لبیک کے ساتھ کئے گئے معاہدے پر جاننے کی کوشش کی مگر دونوں نے موقف اپنایا کہ وہ اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر شیری رحمان سے جب اس بارے میں رائے لی گئی تو انھوں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ حکومت اور کالعدم تحریک لبیک کے درمیان ہونے والے خفیہ معاہدے پر پاکستان پیپلز پارٹی نے ایک سخت موقف قائم کیا ہے اور ہم قومی سلامتی کے پارلیمانی کمیٹی میں اس ایجنڈے کو اٹھائینگے اور اس پر بات کرینگے۔
انھوں نے مزید کہا کہ شروع دن سے ہمارا موقف یہی رہا کہ معاہدے بند دروازوں کے پیچھے نہیں ہونے چاہیں اور اس معاہدے کو پارلیمان میں لانا چاہیے۔ ہم یہ مطالبہ قومی سلامتی کے کمیٹی اجلاس میں بھی اٹھائینگے۔
واضح رہے کہ تحریک لبیک کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر وزیر داخلہ سمیت دیگر وزرا خاموش ہیں۔ خبریں آ رہی ہیں کہ وزیراعظم کو اس معاہدے سے لاعلم رکھا گیا جس پر وہ ناراض ہیں مگر حکومت کے وزیروں اور سپیکر قومی اسمبلی سے آج اس حوالے سے رائے لینے کی کوشش کی گئی مگر انھوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ممبر قومی اسمبلی مفتی شکور سے جب اس حوالے سے رائے لی گئی تو انھوں نے اس پر موقوف اپناتے ہوئے کہا کہ ہماری جماعت آئین اور قانون کو مانتی ہے اور اگر ہمیں اس اجلاس میں بلایا گیا تو ہم اس معاہدے کو دیکھ کر جائزہ لینگے کہ کیا یہ معاہدہ آئین پاکستان کے اصول کے تحت ہوا تو ہم اس کی حمایت کرینگے لیکن اگر ماورائے آئین تھا تو پھر ہم اس پر اپنے تحفظات واضح کرینگے لیکن دونوں صورتوں میں معاہدہ پارلیمان کے سامنے لانے کی سفارش کرینگے۔
خیال رہے کہ اس معاہدے پر سوشل میڈیا سمیت ایک بڑا رد عمل سامنے آیا جہاں کچھ لوگ اس معاہدے کو سراہتے ہیں جبکہ کچھ اس پر تنقید کرتے ہیں۔
نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے نمائندے اور ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا تو انھوں نے موقف اپنایا کہ پہلے تو ہمیں یہ نہیں معلوم کہ یہ معاہدہ کس نے اور کہا کیا ہے جبکہ دوسری جانب جنھوں نے معاہدہ کیا ان کو اختیار کس نے دیا کیونکہ آئین اور قانون کے مطابق صرف پارلیمان ہی ہے جو سب سے بالا ادارہ ہے۔
انھوں نے موقف اپنایا کہ صرف یہ معاہدہ نہیں بلکہ ماضی میں جتنے گروہوں کے ساتھ معاہدے ہوئے ان سب کو پارلیمان کے سامنے لانا چاہیے اور اگر ہمیں بلایا گیا تو ہم یہی موقف اپنائینگے۔
ایک سوال کے جواب میں محسن داوڑ نے موقف اپنایا کہ ریاست نے مختلف قومیتوں کے لئے مختلف سلوک کے پیمانے بنائے ہیں جیسے یہ تنظیم ریاست پر حملہ آور ہوتی ہے، پولیس والوں کو قتل کرتی ہے، ریاستی املاک کو تباہ کرتی ہے اور نظام کو مفلوج بناتی ہے لیکن ان کے ساتھ خوش اسلوبی سے معاہدے ہوتے ہیں جبکہ دوسری جانب دوسری قومیتوں کے لوگ ہیں جو پرامن مظاہرے اور احتجاج کرتے ہیں مگر پھر بھی ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔
انھوں نے موقف اپنایا کہ پشتون قوم کے لاکھوں لوگوں کے نمائندے علی وزیر کو جیل میں ڈالا گیا صرف اس وجہ سے کہ انھوں نے ایک تقریر کی اور گزشتہ کئی مہینوں سے قید میں ہے جبکہ دوسرے قومیت کے لوگ تشدد کرتی ہے اور ان کے ساتھ معاہدے کرکے ہار پہنائے جاتے ہیں تو یہ سلوک واضح ہے لیکن ہمیں اگر اس اجلاس میں بلایا گیا تو ہم اس پر دو ٹوک موقف اپنائینگے۔
نیا دور میڈیا نے اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی کے ترجمان سے اس پر رائے لینے کی کوشش کی لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔