پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف چار سال کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ 21 اکتوبر کو انہوں نے اپنے آبائی شہر لاہور میں ایک بڑے استقبالیہ جلسے سے خطاب کیا جہاں انہوں نے نپے تلے لہجے میں آنے والے الیکشن کے لئے اپنے سیاسی لائحہ عمل کا اعلان کیا۔ کسی سے انتقام نہیں، توجہ اقتصادی ترقی اور علاقائی امن پر۔ پچھلی دہائی کے دوران پاکستان کے سیاسی معاشرے میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ان سے قطع نظر نواز شریف کی توجہ بدستور ترقیاتی کاموں پر مرکوز ہے۔ اگرچہ یہ ایجنڈا ان کے حامیوں میں مقبول ہے، آگے کا راستہ دشواریوں اور انجان خطرات سے پُر ہے۔
پاکستان میں طاقت کی سیاست کا سلسلہ تھکا دینے والا گھن چکر ہے۔ کئی دہائیوں تک ملک 10 سالہ دائرے میں گھومتا رہا۔ عوامی حکومت کی ایک دہائی کے بعد اگلی ایک دہائی فوجی حکمرانی کے نام ہوتی رہی۔ حالیہ برسوں میں، خاص طور پر 2008 کے بعد سے، کہانی میں تھوڑا بدلاؤ آیا ہے۔ متواتر تین اسمبلیاں مدت پوری کرنے میں کامیاب رہیں اور کوئی براہ راست فوجی بغاوت نہیں ہوئی۔ پاکستان کی کمزور جمہوریت کے لئے شاید یہی ایک امید کی کرن ہے۔ حالانکہ اس دوران غیر منتخب ادارے، خاص طور پر فوج اور عدلیہ، وزرائے اعظم کو برطرف کرتے رہے، اور انتخابی عمل اور ان کے نتائج میں ہیر پھیر کر کے پالیسی ایجنڈا خود ترتیب دیتے رہے۔ ایسے وقت میں جب نواز شریف اگلے سال فروری میں ہونے والے انتخابات کی تیاریاں شروع کر چکے ہیں، ملک میں سول ملٹری طاقتوں کے مابین عدم توازن جوں کا توں ہے۔ بلکہ زیادہ شدید اور مہلک ہو چکا ہے۔
2017 میں فوجی اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور میڈیا میں موجود فوج کے حامیوں نے نواز شریف کو اقتدار سے کامیابی کے ساتھ بے دخل کیا، انہیں انتخابی میدان سے نااہل قرار دیا، انہیں (اور ان کی بیٹی کو) جیل بھیجا اور بعد میں انہیں علاج کی غرض سے لندن روانہ کر دیا۔ اس دوران اسٹیبلشمنٹ نے وزارت عظمیٰ کے لئے اپنے پسندیدہ امیدوار عمران خان کو پروان چڑھایا۔ عمران خان بھی بخوشی ان کے ہاتھوں میں کھلونا بن گئے کیونکہ پاکستان میں طاقت حاصل کرنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔ ایک عشرے کے دوران عمران خان کا امیج نہایت احتیاط کے ساتھ نہ صرف نجات دہندہ کے طور پر بنایا گیا بلکہ پاکستان کے شہری متوسط طبقے اور ریاستی اداروں میں ان کی سیاست کو مقبولیت بھی حاصل ہوئی جو اب بھی برقرار ہے۔ اس کے باوجود عمران خان اور فوج میں ان بن ہوئی اور نتیجتاً ایک تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو حکومت سے نکال دیا گیا۔
اس سارے معاملے میں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جو پہلی بار ہوا ہو مگر ایک چیز مختلف ہوئی کہ عمران خان نے اپنی برطرفی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ عمران خان اپنی مقبولیت کے بل بوتے پر طاقتور حلقوں سے لڑائی پر اتر آئے لیکن اس لڑائی میں ان کے ساتھ حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی اہلکار اور کچھ جج حضرات بھی شامل تھے جو کبھی چھپ کر اور کبھی کھلے عام ان کی حمایت کرتے رہے کیونکہ یہ بھی عمران خان کی مقبولیت سے متاثر تھے۔ آخری دنوں میں عمران خان کی حکومت غیر مقبول ہو چکی تھی، لیکن ان کی برطرفی سے حالات بدل گئے اور جلد ہی لوگ ان کی (ناقص) حکمرانی کو بھول گئے۔ خراب معیشت، بڑھتی غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کی شرح میں 40 فیصد سے بھی زیادہ اضافے کی تمام تر ذمہ داری شہباز شریف کی سربراہی میں آنے والی اتحادی حکومت پر ڈال دی گئی۔ عمران خان کے لئے اپنے بیانیے کو آگے بڑھانے کے لئے یہ نہایت سازگار حالات تھے اور اسی دوران 9 مئی کو جب رینجرز نے عمران خان کو گرفتار کیا تو ان کے کئی حامی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے فوج کے ساتھ تصادم پر اتر آئے۔ شاید یہی وہ موقع تھا جس کی فوجی قیادت کو تلاش تھی اور اس کے بعد پی ٹی آئی کے خلاف شدید کریک ڈاؤن شروع ہو گیا۔
اب جب کہ ان کا سب سے بڑا سیاسی مخالف جیل میں ہے اور ملک کی گورننس ڈانواں ڈول ہے، فوج بظاہر سب معاف کر چکی، سب بھول چکی ہے۔ نواز شریف واپس آ گئے ہیں اور بازی پلٹ چکی ہے۔ ان کی جماعت مقبول ہو رہی ہے اور اسے 2024 کے انتخابات میں جیتنے والے گھوڑے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن نواز شریف کو اس سب کے لئے بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ پاکستان آنے سے قبل لندن میں ایک پارٹی اجلاس کے دوران نواز شریف نے اپنی معزولی کے ذمہ دار ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کا مطالبہ کیا۔ چند ہی دنوں میں ان کی پارٹی، خاص طور پر ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے انہیں اپنا بیانیہ تبدیل کرنے پر آمادہ کر لیا اور یہ 'احتساب کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دینے' والے بیانیہ میں تبدیل ہو گیا۔ لاہور جلسے میں بھی نواز شریف نے یہی کہا کہ وہ تمام 'اداروں' کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہش مند ہیں اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا ذکر انہوں نے محض بالواسطہ انداز میں کیا۔ طویل عرصے سے طاقت کے کھیل کا حصہ رہنے کے باعث نواز شریف کو خوب احساس ہے کہ سیاست دان کس حد تک جا سکتے ہیں۔ ماضی میں تین مرتبہ وہ اپنی 'ضد' کی قیمت ادا کر کے اقتدار سے محروم ہو چکے ہیں۔
نواز شریف جب آخری بار حکومت میں تھے، اس کے بعد سے اب تک حالات میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ الٹا ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے اپنے دور میں اقتصادی امور اور قانون سازی کے عمل میں فوجی مداخلت کو مزید تقویت دی ہے۔ اس سے فوج کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے بعض اختیارات ابھی عدالتی جانچ کی زد میں ہیں کیونکہ سپریم کورٹ نے تقریباً ایک ہفتہ قبل یہ قرار دے دیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ لیکن اس نقصان کو ختم کرنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے کیونکہ فوج ابھی بھی فیصلے کر رہی ہے اور مستقبل قریب میں بھی کرتی رہے گی۔ نواز شریف جب پہلے اقتدار میں نہیں رہ سکے تو موجودہ حالات میں کیسے رہ پائیں گے؟
اس سوال کا جواب اس بات میں مضمر ہے کہ حکومت ملنے کی صورت میں وہ کتنی جلد معیشت کا رخ موڑ پاتے ہیں۔ نواز شریف کی پارٹی یا یوں کہیے کہ کسی بھی پارٹی کے پاس ایسا لائحہ عمل موجود نہیں جس کے ذریعے وہ معیشت کو ٹھیک کر سکیں۔ پاکستان آئی ایم ایف کی سخت شرائط میں بندھا ہوا ہے اور تب تک عوام کو ریلیف اور سبسڈی دینا لگ بھگ ناممکن ہے جب تک اشرافیہ کو حاصل مراعات کم نہیں کی جاتیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب عمران خان جیسا مقبول رہنما نااہل قرار دیا جا چکا ہو اور ان کی جانب سے انتخابی مہم چلانے کا امکان بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں انتخابات کو کیسے منصفانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں عام آدمی کسی بھی ایسی جماعت کی حمایت نہیں کرے گا جو اسٹیبلشمنٹ کی قریبی سمجھی جاتی ہے۔
نواز شریف بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنے اور تجارت کھولنے کی اپنی پالیسی پر ثابت قدم ہیں۔ ماضی میں انہیں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مگر ملک کو درپیش اقتصادی مسائل اور خلیجی ریاستوں کے مضبوط اثر و رسوخ کو دیکھتے ہوئے جو بھارت کے مضبوط سٹرٹیجک اور اقتصادی اتحادی بن چکے ہیں، اس مرتبہ معاملات خاصے بدل چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی میں بھارت نواز شریف کی پیش کش کا کیا جواب دے گا؟
اپنے پورے سیاسی کریئر کے دوران اس وقت نواز شریف کو سب سے بڑے امتحان کا سامنا ہے۔ اگر وہ ناکام ہو جاتے ہیں تو ان کی سیاسی میراث ختم ہو جائے گی۔ لیکن کچھ قوتوں کے ساتھ ناگزیر سمجھوتوں کے بغیر وہ پاکستان میں اقتدار حاصل نہیں کر سکتے۔ اور اگر وہ اگلے وزیر اعظم بننے یا نامزد کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے، سیاسی عدم استحکام کی تلوار اقتصادی ترقی اور بہتر پالیسی سازی کے سر پر لٹکی رہے گی۔