Get Alerts

کیا عمران خان سانحہ اے پی ایس کے ذمہ داروں کو معاف کرسکیں گے؟

کیا عمران خان سانحہ اے پی ایس کے ذمہ داروں کو معاف کرسکیں گے؟
پاکستان میں دہشتگردی کے جتنے بھی واقعات ہوئے ان کے پیچھے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا ہاتھ رہا، ہر دھماکے کے بعد میڈیا پر آکر انہوں نے اسے کھلم کھلا تسلیم کیا، ان میں آرمی پبلک سکول کے واقعے کی ذمہ داری بھی شامل تھی۔

اس تنظیم کی بہت سی جڑیں بنیں، جن کا مقصد پاکستان کو ڈی سٹیبلائز کرنا، دہشت پھیلانا اور عوام کو خوف میں مبتلا کرنا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس لڑائی میں 60 ہزار سے زائد لوگوں کی شہادت ہوئی۔

اب ہمارے وزیراعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ اس تنظیم سے بات چیت ہو سکتی ہے، اُن کا معاف کیا جا سکتا ہے، ہماری کچھ دھڑوں سے بات چیت ہو رہی ہے اور اس میں افغانستان کے طالبان اُن کی مدد کررہے ہیں۔

اگر عمران خان نے سانحہ اے پی ایس کے ذمہ داروں کو معافی دی تو عوام انھیں کبھی معاف نہیں کرینگے کیونکہ ان لوگوں نے معصوم بچوں کو بھی نہیں بخشا اور خون کی ندیاں بہائیں۔ اب خان صاحب پتا نہیں کہ کس منطق کے تحت ان کو معافی دینے کا سوچ رہے ہیں۔

اب عوام بنگلا دیش کی تقسیم کو بھول گئے ہیں، اب جب بھی 16 دسمبر آتا ہے تو ذہن میں آرمی پبلک سکول کا واقعہ آ جاتا ہے جس میں 154 بچوں نے شہادت نوش کیا تھا جبکہ تعداد اس سے زیادہ بتائی جاتی ہے کیونکہ اس واقعے کی بہت سی پرتیں منظر عام پر نہیں آئیں اور نہ کبھی آئیں گی۔

پاکستان کی تاریخ میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والا دہشتگردی کا واقعہ ایک بدترین داغ ہے۔ یہ کسی بھی تعلیمی ادارے پر ہونے والا اب تک ملک میں ایک بڑا واقعہ ہے، اس کے بعد متعدد واقعات ہوئے مگر وہ اُس نوعیت کے نہیں تھے حالانکہ باجوڑ کے دینی مدرسے پر ہونے والا ڈرون حملہ بھی ایک بڑا حملہ تھا جس میں سو کے قریب دینی مدرسے کے طالب علم شہید ہو گئے تھے۔

حالانکہ وہ بچے بھی ہمارے بچے تھے، اُن کا خون بھی ہمارا خون تھا، جس طرح درد آرمی پبلک سکول کے بچوں کے والدین نے اٹھایا تھا، وہی درد باجوڑ کے والدین نے بھی اٹھایا کیونکہ خون سب کا ایک جیسا تھا، درد کی نوعیت بھی ایک جیسی تھی۔

سیکورٹی فورسز پر حملے میں مارے جانے والے بھی ہمارے لوگ تھے، اُن کے بھی خاندان تھے، وہ بھی گھر بار رکھتے تھے اور باقی جو بازاروں میں مساجد میں مرتے رہے جو جمعہ کی نماز کے لئے گئے اور واپس نہیں آئے وہ بھی ہمارے لوگ تھے، وہ بھی پختون تھے۔ اُن کا خون بھی سرخ تھا اور وطن پر بہنے والا تھا۔

 

مصنف کالم نگار، فیچر رائٹر، بلاگر، کتاب 'صحافتی بھیڑیے' کے لکھاری اور ویمن یونیورسٹی صوابی میں میڈیا سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔