بلوچستان میں اس وقت صحافت بیساکھیوں پر کھڑی ہے کیونکہ ایک جانب بلوچستان کے صحافیوں کو پیشہ ورانہ مشکلات درپیش ہیں تو دوسری جانب انہیں ہمہ وقت انتظامی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صحافیوں کو ہراساں کیا جانا بھی روز کا مشغلہ بن گیا ہے۔ اگر ہراساں کیا جانا صرف قبائلی طاقتور لوگوں کی طرف سے ہوتا تو اس کا ازالہ بھی کیا جانا ممکن تھا تاہم بلوچستان کے اکثر اضلاع میں یہ شکایات سامنے آ رہی ہیں کہ وہاں کے مقامی صحافیوں کو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ حاصل کردہ اطلاعات کے مطابق آزادی اظہار رائے کے حوالے سے صحافیوں کو سب سے زیادہ پریشانیوں کا سامنا اندرون بلوچستان کے بیش تر اضلاع میں کرنا پڑتا ہے۔
اس دباؤ کی واضح مثال یہ واقعہ ہے کہ لورائی کے بزرگ صحافی پیر محمد کاکڑ نے جب ڈپٹی کمشنر کے خلاف آواز اٹھائی تو پہلے انہیں خاموش کرانے کے لیے دباؤ بڑھایا گیا لیکن جب سینیئر صحافی دباؤ کو مسترد کر کے بدستور عوامی مسائل اجاگر کرنے پر قائم رہا تو انہیں 7 جولائی 2022 کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 500 کے تحت گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ انہیں عید پر بھی رہا نہیں کیا گیا اور انہیں بڑی عید جیل میں ہی گزارنی پڑی۔
بزرگ صحافی پیر محمد کاکڑ بتاتے ہیں کہ مقدمہ قائم کرنے اور گرفتاری سے قبل اس وقت کے ڈپٹی کمشنر عتیق الرحمٰن شاہوانی کی جانب سے مختلف ذرائع سے انہیں دھمکیاں ملتی رہیں کہ خاموش رہو اور پھر ڈپٹی کمشنر آفس سے انہیں ایک لیٹر بھی جاری ہوا کہ آپ کو تین دن کی مہلت دی جاتی ہے بصورت دیگر آپ کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اس کے بعد صحافی پیر محمد کو ڈی سی لورالائی کے ڈرائیور کی درخواست پر گرفتار کر لیا گیا۔ اس وقت جبکہ پیر محمد کاکڑ کو گرفتار کیا گیا تھا تو ایک صحافی نے مذکورہ واقعہ پر ڈی سی لورالائی ڈاکٹر عتیق الرحمٰن شاہوانی کا مؤقف لیا تو انہوں نے کہا تھا کہ صحافی پیر محمد کو الزامات کے حوالے سے وضاحت کا موقع دیا گیا، وضاحت نہ دینے اور بدستور خلاف ورزی کرنے پر پیر محمد کاکڑ کے خلاف ان کے ڈرائیور نے درخواست دی تھی کیونکہ وہ انتظامیہ کا حصہ ہے۔ ڈرائیور کی درخواست پر پیر محمد کاکڑ کی گرفتاری سے قبل قانونی مشاورت کی گئی اور پھر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 500 کے تحت ان کی گرفتاری عمل میں آئی۔
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 500 کیا ہے؟
خضدار بار کونسل کے جنرل سیکرٹری اور معروف قانون دان ایڈووکیٹ عبدالسلام لہڑی کے مطابق تعزیرات پاکستان 1860 کی دفعہ 500 میں لکھا ہے کہ کوئی بھی اگر کسی کی بدنامی یا رسوائی کرے گا تو اسے دو سال قید یا پانچ لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ یہ دفعہ عام شہریوں کے لیے ہے تاہم اس دفعہ میں 2021 میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے ایک ترمیمی بل کے ذریعے دفعہ 500 الف کا اضافہ کر دیا تھا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جو بھی افواج پاکستان کا تمسخر اڑائے گا یا اسے بدنام کرنے میں ملوث ہو گا تو اسے 2 سال قید یا پانچ لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
ایڈووکیٹ عبدالسلام لہڑی کے مطابق پیر محمد کاکڑ کی گرفتاری انسانی حقوق اور آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے کیونکہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 19 تمام شہریوں کو آزادی اظہار رائے کا حق دیتا ہے اور آرٹیکل 4 کہتا ہے کہ سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے اور آزادی اظہار رائے پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔
صحافی پیر محمد کاکڑ کیا کہتے ہیں؟
پیر محمد کاکڑ بتاتے ہیں کہ اس وقت ضلعی انتظامیہ کی جانب سے انہیں تنبیہ کی گئی تھی کہ اگر خبریں دینے کا سلسلہ موقوف نہ کیا گیا تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ جس پر انہوں نے انکار کرتے ہوئے مقامی مسائل اجاگر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، جن میں ڈپٹی کمشنر کی مبینہ بدعنوانی اور ان کے ماتحت مختلف محکموں کی کرپشن کے متعلق لکھنا شامل تھا۔ اس پر وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انہیں 7 جولائی 2022 کو گرفتار کر لیا گیا اور بعد ازاں مقامی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے لورالائی جیل منتقل کر دیا گیا۔ جیل میں ہی انہوں نے عیدالاضحیٰ گزاری۔
پیر محمد کاکڑ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس اور کوئٹہ و لورالائی کے صحافیوں سے شکوہ کناں تھے کہ انہوں نے ان کے لیے آواز نہیں اٹھائی۔ پیر محمد کے مطابق بلوچستان یونین آف جرنلسٹس اور لورالائی کے صحافیوں کی جانب سے آواز نہ اٹھانے کی وجہ یہ ہے چونکہ انہوں نے ملازم صحافیوں کے خلاف ہائی کورٹ میں کیس کیا ہوا ہے۔ کیونکہ لورالائی کے اکثر صحافی اور کوئٹہ کے کچھ صحافی سرکاری ملازمین ہیں تو اس لحاظ سے وہ ان سے نالاں تھے جس کی بنا پر ان کی گرفتاری پر سب نے خاموشی اختیار کی تاہم بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے علاوہ ملک کی صحافتی تنظیموں اور صحافیوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ انہوں نے اپنے اپنے پلیٹ فارمز پر آواز بھی اٹھائی جن میں عاصمہ شیرازی، حامد میر، اعزاز سید اور سبوخ سید سرفہرست تھے۔ انہوں نے انتظامیہ کے اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ جس کے بعد 14 جولائی 2022 کو ضمانت پر پیر محمد کاکڑ کو رہائی ملی۔
اس کے بعد صحافی پیر محمد کاکڑ نے کیس کا سامنا کیا اور 20 مئی 2023 کو سیشن کورٹ سے باعزت بری ہوئے اور کیس خارج کر دیا گیا جس کے بعد وکلا کی مشاورت کے بعد صحافی پیر محمد کاکڑ نے ڈپٹی کمشنر اور اس کے ماتحت ملازم کو ہتک عزت کا نوٹس جاری کیا اور 10 دن میں تحریری معافی مانگنے کو کہا جس کا ان کو کوئی جواب نہ ملا۔ اب 21 اگست 2023 کو پیر محمد کاکڑ نے سابق ڈپٹی کمشنر عتیق الرحمٰن شاہوانی اور ان کے ڈرائیور کے خلاف سیشن کورٹ لورالائی میں تین تین کروڑ روپے ہرجانے کا کیس دائر کر دیا ہے۔ نوٹس ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر عتیق الرحمٰن شاہوانی اور ان کے ڈرائیور کے نام جاری ہو چکا ہے۔
ڈپٹی کمشنر عتیق الرحمٰن شاہوانی کا مؤقف
اس حوالے سے جب ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر عتیق الرحمٰن شاہوانی سے ان کا مؤقف لیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پیر محمد کاکڑ نے فیس بک پر ضلعی انتظامیہ کے خلاف مہم شروع کی اور الزامات عائد کرتے رہے۔ جس کے بعد ان کے خلاف قانون حرکت میں آیا اور انہیں قانونی طور پر ہی گرفتار کیا گیا اور مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیے جانے کے بعد ہی جیل بھیجا گیا تاہم جب کیس چل رہا تھا تو آل پارٹیز اور انجمن تاجران و علاقہ معززین ان کے پاس آئے اور کہا کہ انتظامیہ کیس کی مزید پیروی ترک کر دے، ثالث معاملہ حل کر دیں گے۔ جب ہم نے کیس کی پیروی ترک کر دی جس کی بنا وہ بری ہو گیا لیکن اب اچانک پتہ چلا کہ وہ ہرجانے کا کیس کر رہا ہے۔ اس کا بھی ہم سامنا کریں گے اور ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے پر اوپن کورٹ ہو جہاں پی ایف یو جے کے سینیئر صحافی آئیں اور معاملے کو دیکھیں۔ اوپن کورٹ میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کا مؤقف
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر عرفان سعید کا کہنا ہے کہ پیر محمد کاکڑ والے معاملے پر انہوں نے چیف سیکرٹری بلوچستان سے بات کی تھی اور کمشنر لورالائی سے بھی بات کی گئی تھی۔ ڈپٹی کمشنر سے بھی رابطہ کیا تھا تاہم ان کی جانب سے پیر محمد کاکڑ کے معاملے کو ذاتی نوعیت کا معاملہ قرار دیا جا رہا تھا۔ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس نے پیر محمد کاکڑ کے لیے آواز بلند کی تھی۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر ڈپٹی کمشنر پیر محمد کاکڑ کے خلاف اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوا تھا۔
لورالائی پریس کلب صحافیوں کے درمیان باہمی تنازعات کی بنا پر غیر فعال ہے تاہم پریس کلب سے وابستہ صحافیوں سے اس کیس کے متعلق بارہا رابطہ کرنے اور مؤقف لینے کی کوشش کی گئی لیکن رابطہ نہیں ہو سکا۔
خضدار پریس کلب کے دو صحافیوں کی ہراسگی کا معاملہ
خضدار پریس کلب کے دو صحافیوں کو محض اس لیے ہراساں کیا گیا کہ انہوں نے مقامی انتظامیہ کے خلاف ہونے والی ایک پریس کانفرنس کو چلایا۔ دستیاب معلومات کے مطابق 2021 جون کی بات ہے کہ اس وقت کے پریس کلب کے صدر کی جانب سے پریس کلب کے ممبران کو ایک میسج موصول ہوا کہ صبح 12 بجے ایک اہم شخصیت کی پریس کانفرنس ہو گی لہٰذا تمام ساتھی کوریج کے لئے پہنچ جائیں۔ مقررہ وقت پر ایک قوم پرست رہنما نے بیس، تیس افراد کے ہمراہ پریس کلب ہال میں پریس کانفرنس شروع کی۔ خضدار کے صحافیوں کے مطابق چونکہ ٹی وی چینلز تو عام پریس کانفرنسوں کو نہیں چلاتے جبکہ اخبارات میں خبر آنے کے لیے ایک دن کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ پریس کانفرنس کرنے والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی خبر فوری طور پر چل جائے اور ویڈیوز کی صورت میں ان کی پریس کانفرنس کو کوریج ملے۔ لہٰذا اس کمی کو دور کرنے کے لیے مقامی صحافیوں نے اپنے اپنے فیس بک پیچ بنا رکھے ہیں جہاں وہ اس طرح کی پریس کانفرنسیں اور پروگرامز کو لائیو چلاتے ہیں۔ لہٰذا قوم پرست رہنما کی بھی پریس کانفرنس کو روٹین کے مطابق کچھ صحافیوں نے ویڈیو ریکارڈ کرنے اور کچھ نے پوائنٹس لکھنے جبکہ دو نے لائیو چلانے کی ذمہ داری لی۔
جب پریس کانفرنس شروع ہوئی تو ابتدائی کلمات کے بعد قوم پرست شخص نے سخت لہجہ اپناتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کے خلاف باتیں کیں۔ ان کی پریس کانفرنس 22 منٹ پر محیط تھی، تاہم صحافیوں نے جب محسوس کیا کہ پریس کانفرنس میں سخت لہجہ اپنایا جا رہا ہے تو انہوں نے لائیو کوریج کو روک دیا۔ ان صحافیوں کے مطابق انہوں نے پریس کانفرنس کو محض تین منٹ تک لائیو چلایا، لیکن جب پریس کانفرنس کی ویڈیو ضلعی انتظامیہ کو پہنچی اور ان تک یہ بات بھی پہنچائی گئی کہ فلاں دو صحافیوں نے اس پریس کانفرنس کو چلایا ہے، جس پر انتظامیہ کی جانب سے صدر خضدار پریس کلب کو کال آئی کہ ہم مذکورہ دونوں صحافیوں کو نقص امن کے قانون تھری ایم پی او جو کہ انتظامی سربراہ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اس کے تحت گرفتار کر کے جیل بھیج رہے ہیں۔ اور یہ کہ پریس کلب بھی فوری طور پر ان کی ممبرشپ ختم کر دے۔ بصورت دیگر پریس کلب کو سیل کر دیا جائے گا۔
بتایا جاتا ہے کہ ایس ایچ او اور ان کی ٹیم ان صحافیوں کو گرفتار کرنے کے لیے خضدار پریس کلب پہنچی تاہم صحافیوں کو پریس کلب میں نہ پا کر واپس چلی گئی۔ شدید دباؤ کی بنا پر خضدار پریس کلب کے صدر و عہدیداران نے ان دو صحافیوں کی تاحکم ثانی ممبرشپ ختم ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا، جس کے بعد ان دو صحافیوں نے نوٹیفکیشن کو غیرآئینی اقدام قرار دے کر مخالفت کی۔ یہاں تک کہ انہوں نے کورٹ میں کیس دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ بات جب ضلعی انتظامیہ تک پہنچی کہ متاثرہ صحافی اپنی صحافتی تنظیموں اور عدالت سے رجوع کر رہے ہیں جس کے بعد وہ پسپائی اختیار کر کے پریس کلب کے صدر کو ان کی ممبرشپ بحال کرنے کا کہہ دیا۔
اس صورت حال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اندرون بلوچستان میں صحافی اور پریس کلبز کتنے خودمختار ہیں جبکہ پریس کلبز انتظامیہ کی جانب سے دباؤ کے سامنے بجائے اپنے ممبر کا دفاع کرنے کے الٹا اس کی ممبرشپ کینسل کرنے پر مجبور ہو جانا صحافت کی آزادی کو متاثر کرتا ہے۔ ایسی صورت میں صحافت کس طرح آزادی سے کام کر سکتی ہے؟