دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی کامیابی کے پیچھے ایک راز ہے جس نے ان کو غربت، پسماندگی، اقربہ پروری اور کرپشن سے نکال کر ترقی اور خوشحالی کے راستے پر ڈال دیا اور وہ راز سیاست سے پاک انتظامیہ ہے۔ سیاست اور انتظامیہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں مگر ان کی مثال سمندر کے دو کناروں جیسی ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہیں مگر کبھی باہم نہیں مل سکتے۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کشتی کو چلانے کے لیے پانی کی ضرورت ہے مگر اگر وہی پانی کشتی کے اندر آ جائے تو کشتی ڈوب جاتی ہے۔ اسی طرح انتظامیہ کو چلانے کے لیے سیاست کی ضرورت پڑتی ہے مگر سیاست انتظامیہ کے اندر مداخلت کرے تو انتظامیہ کی ناؤ ڈوب جاتی ہے۔
جن قوموں اور ملکوں نے اس راز کو جان لیا انہوں نے ترقی کی منزلیں طے کر لیں مگر جن ممالک میں سیاست انتظامیہ کے کاموں میں مداخلت کرتی رہی ہے وہ آج بھی غربت اور پسماندگی سے جُوجھ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں کی انتظامیہ انتہائی حد تک سیاست زدہ ہے جس کی وجہ سے ملک کو گورننس اور اداروں کے غیر فعال ہونے جیسے مسائل لاحق ہیں جو ہماری اقتصادی اور معاشرتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن کے کھڑے ہیں۔
ایک ریاست بہت ساری اقوام، مذاہب، نسلوں، رنگوں اور ذاتوں پر مشتمل ہوتی ہے جس میں ہر فرد کے مسائل ہوتے ہیں اور یہ ریاست کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بلاتفریق افراد کے مسائل کو حل کرے۔ مسائل سب کے مشترک ہوتے ہیں۔ ہر طبقے کے افراد کو صحت، تعلیم، تحفظ اور ترقی کے مواقع چاہئیں۔ یہ سب انتظامیہ کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ ریاست کے تمام افراد کو یہ ساری سہولیات مہیا کرے۔ انتظامیہ تب یہ کام کر سکتی ہے اگر وہ طبقاتی تقسیم سے بالاتر ہو کر کام کرے گی۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب انتظامیہ کے کاموں میں سیاست کو کوئی دخل نہ ہو۔ کیونکہ سیاست طرف داری کی ترغیب دیتی ہے جس سے انتظامیہ متعصب ہو جاتی ہے اور انصاف نہیں کر پاتی۔
انتظامیہ کے متعصب رویے کی وجہ سے معاشرے کے تمام افراد کو ایک جیسی مراعات اور سہولیات میسر نہیں ہو پاتیں۔ اس سے معاشرے میں کچھ طبقات تو ترقی کر جاتے ہیں جبکہ دیگر طبقے محرومی کا شکار ہو کر پسماندہ رہ جاتے ہیں۔ یہ عمل ریاست کی موت ہے کیونکہ ریاست اس وقت ترقی کرتی ہے جب معاشرے کے تمام افرا ترقی کریں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ریاست کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ انتظامیہ سے سیاست کو طلاق دے دینی چاہئیے۔
پاکستان کی ریاست بھی دنیا کی باقی ریاستوں کی طرح مختلف طبقات پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں طبقات کے مفادات ریاست کے مفاد پر غالب ہیں۔ انتظامیہ اور اس کے اداروں پر سیاست کا رنگ ہے۔ ریاست انتظامیہ کے ہر کام میں مداخلت کرتی ہے۔ اداروں کے افسران کی تعیناتی سے لے کر ترقیاتی فنڈز کی فراہمی تک ہر کام سیاست اور سیاسی افراد کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ پاکستان میں کوئی بھی عوامی فلاح و بہبود کا کام کرنے سے پہلے مذہب، فرقے، قوم اور برادری کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر 1971 تک مشرقی پاکستان کے عوام کو بھی یہی شکوہ تھا کہ پاکستان کی انتظامیہ متعصب ہے کیونکہ ترقیاتی کاموں اور قومی منصوبوں میں مغربی پاکستان والوں کو مشرقی پاکستان والوں پہ فوقیت دی جاتی ہے۔
پاکستان میں سیاست دانوں کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے علاقے یا اپنی برادری کا سرکاری افسر تعینات کروایا جائے اور پھر اس کی مدد سے انتظامیہ سے اپنی مرضی کے کام کروائے جائیں۔ اگر کوئی سرکاری افسر کسی خاص برادری سے ہو تو اس کے دفتر میں اس کی برادری کے لوگوں کا یوں تانتا بندھا رہتا ہے کہ جیسے انتظامیہ ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ معاشرے کے وہ پسے ہوئے افراد جو کسی پریشر گروپ، مافیا اور مضبوط برادری سے تعلق نہیں رکھتے وہ اپنے کام کروانے کے لیے ذلیل و خوار ہوتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے بھی سیاسی بنیادوں پر دیے جاتے ہیں۔ اصولاً تو انتظامیہ کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئیے کہ ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے ایسے اداروں اور فرموں کو دیے جائیں جو اچھی کارکردگی کی حامل ہوں اور قانونی تقاضے پورے کرتی ہوں مگر یہاں پر گنگا الٹی بہتی ہے۔ یہاں ٹھیکے سیاسی اور ذاتی وابستگی کی بنیادوں پر دیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہر دوسرے ترقیاتی کام کے پیچھے کسی سیاست دان، جرنیل یا بیوروکریٹ کا رشتے دار ہو گا۔ اس اقربہ پروری کی وجہ سے سینکڑوں ایسے منصوبے جو ملک کا نقشہ بدل سکتے تھے، کرپشن اور نااہلی کی نذر ہو گئے۔
مغربی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں پوری دنیا سے لوگ ہجرت کر کے وہاں بسے ہوئے ہیں۔ وہاں پر کمیونٹی سسٹم بہت مضبوط ہے مگر اس کے باوجود اقربہ پروری اور متعصب بنیادوں پر کام کرنے کا رواج نہیں ہے۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ انہوں نے انتظامیہ کو سیاست سے پاک کر کے انصاف کی بنیادوں پر استوار کر رکھا ہے۔ وہاں پہ کوئی جرات نہیں کر سکتا کہ مذہبی اور قومی بنیادوں پر کوئی فیصلہ کرے مگر انتظامیہ اور قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ انتظامیہ سیاست سے بالاتر ہو کر کام کرتی ہے اس لیے تمام طبقات کو ترقی کے مواقع ملتے ہیں جس سے معاشرے میں Even Growth ہوتی ہے اور اس طرح ریاست ترقی یافتہ اور مضبوط ہوتی ہے۔
پاکستان کی انتظامیہ میں مذہبی اور قومی تعصب، فرقہ پرستی اور صوبائیت کا سیاسی عنصر موجود ہے جس نے قیام پاکستان سے لے کر اب تک اس کی ترقی کے سفر کو روک رکھا ہے۔ پاکستان میں کچھ طبقات اور صوبے ترقی میں ہیں جبکہ باقی اپنے بنیادی حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کسی خاص صوبے کے افراد کو خاص استثنیٰ حاصل ہے جبکہ باقی صوبوں کے محبوب ترین لیڈروں کو پھانسی دے دی جاتی ہے۔ قومی اور نسلی تعصب کی وجہ سے حکومت اور انتظامیہ کے بڑے بڑے عہدے انتہائی قابل افراد کو نہیں جاتے بلکہ ایسے تقسیم ہوتے ہیں جیسے اندھے باہم ریوڑیاں بانٹتے ہیں۔
یہ ریاست کے لیے ایک مہلک عمل ہے کیونکہ جب انتظامیہ سیاست زدہ ہو جائے گی تو اس ریاست کو غربت، پسماندگی اور غلامی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ سیاست کا کام انتظامیہ کو قوانین اور منصوبے دینا ہے۔ اس کے بعد انتظامیہ کا کام ہے کہ اس کے لیے بہترین صلاحیتوں اور بہترین افرادی قوت کو استعمال کرتے ہوئے بلاتفریق کام کرے۔ سیاست اور انتظامیہ کی یہ حد بندی ایک بنیادی نکتہ ہے جس کے بغیر پاکستان کبھی بھی ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک نہیں بن سکتا۔
عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔