عمران خان کی بہن علیمہ خان انہیں جیل سے نکلوانے کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ کوئی ایسی ڈیل ہو جائے جس کے تحت عمران خان جیل سے باہر آ جائیں اور اگر انہیں ملک سے باہر بھجوا دیا جائے تو یہ 'آپشن' سب سے اچھا ہو گا۔ علیمہ خان کی اس حوالے سے کہیں نہ کہیں ڈیل چل رہی ہے اور اگر یہ ڈیل کامیاب ہو گئی تو علیمہ خان وہ واحد ذریعہ ہوں گی جس کی وجہ سے عمران خان جیل اور ملک سے باہر جا سکیں گے۔ اس سارے معاملے میں بشریٰ بی بی کو سائیڈ لائن کیا جا چکا ہے۔ یہ انکشاف کیا ہے سینیئر صحافی جاوید چودھری نے۔
یوٹیوب پر اپنے حالیہ وی-لاگ میں صحافی جاوید چودھری نے بتایا کہ اس وقت بہت سی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ بشریٰ بی بی نے کچھ ملکوں کے سفیروں سے ملاقات کی ہے اور وہ ڈیل کی کوشش کر رہی ہیں۔ درحقیقت اگر وہ یہ ملاقاتیں کر بھی رہی ہیں تو ڈیل ہونے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ بشریٰ بی بی کو بہت زیادہ پسند نہیں کرتی۔ اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ عمران خان کی زندگی میں جتنے بھی مسائل ہیں، ان کی ساڑھے تین سال کی حکومت میں جو کچھ بھی ہوا اس کا مرکز بشریٰ بی بی ہی تھیں۔ اگر وہ عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب نہ بنواتیں، فرح گوگی کو سب معاملات میں آگے نہ کرتیں، ان کے صاحبزادے گڑبڑ نہ کرتے اور اگر بشریٰ بی بی کچھ لوگوں کے ساتھ رابطے کر کے عمران خان کے گرد گھیرا تنگ نہ کرتیں تو شاید عمران خان، پارٹی اور ملک کے حالات آج مختلف ہوتے۔
جاوید چودھری نے بتایا کہ عمران خان کی اگر کوئی ڈیل ہو سکتی ہے تو وہ علیمہ خان کے ذریعے سے ہو گی جس کے کامیاب ہونے کے امکان زیادہ ہیں کیونکہ اس وقت ملک کو استحکام کی ضرورت ہے جو کہ تب تک ممکن نہیں جب تک عمران خان پاکستان میں ہیں۔ انہیں باہر بھیج کر ان سے یہ یقین دہانی کروائی جائے گی کہ وہ کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیں گے۔ کوئی بیان دیں گے اور نا ہی کوئی انٹرویو۔ اگر یہ ڈیل ہو جاتی ہے تو پاکستان کے حق میں 'بہترین' ہو گا کیونکہ اس وقت ملک کو استحکام کی ضرورت ہے۔
جاوید چودھری کے مطابق اس وقت جیل میں عمران خان کے ساتھ دو خواتین مسلسل ملاقاتیں کر رہی ہیں؛ ایک ان کی بہن علیمہ خان اور دوسری ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی۔ ابتدائی طور پر 2، 3 بار بشریٰ بی بی عمران خان سے ملاقات کے لیے جاتی رہیں، اس دوران ان کی بہنوں کو ملاقات کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن جب بشریٰ بی بی نہیں جا سکیں تب علیمہ خان نے ملاقات کی کوشش کی اور انہیں عمران خان سے ملنے کی اجازت مل گئی۔
ان ملاقاتوں کے بعد عمران خان کی صحت کے حوالے سے ان کی اہلیہ اور بہن دونوں کی جانب سے بیانات دیے گئے تاہم دونوں کے بیان تضاد پر مبنی ہیں۔ بشریٰ بی بی کا کہنا تھا کہ عمران خان کی صحت بہت خراب ہے۔ ان کے مسلز کو نقصان پہنچ رہا ہے اور وزن بھی کم ہو رہا ہے۔ انہیں مناسب کھانا نہیں دیا جا رہا، کھانے کے نام پر محض شوربہ اور کچی پکی روٹی دی جاتی ہے۔ ایک 70 سالہ شخص کی گرتی صحت کی وجہ سے ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
دوسری جانب عمران خان سے ملاقات کرنے کے بعد علیمہ خان نے بیان دیا کہ عمران خان جیل میں بالکل مطمئن ہیں۔ علیمہ خان کے مطابق عمران خان کا کہنا ہے کہ میں جیل میں دوسری بار قرآن مجید پڑھ رہا ہوں۔ چونکہ اسلامی تاریخ پڑھنے کا مجھے بہت پہلے سے شوق ہے تو میں وہ بھی پڑھ رہا ہوں۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔ میں ہر قسم کے ماحول میں 'ایڈجسٹ' کر لیتا ہوں تو اس ماحول میں بھی ایڈجسٹ کر رہا ہوں۔
علیمہ خان نے مزید کہا کہ عمران خان جیل میں ایڈجسٹ ہو گئے ہیں اور ان کی صحت بہت اچھی ہے۔ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ جیل انتظامیہ کے رویے سے بھی مطمئن ہیں۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ کھانا بھی ٹھیک ہے اور مجھے کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہے۔ جیل انتظامیہ میرا بہت خیال رکھ رہی ہے۔
جاوید چودھری کا کہنا تھا کہ دونوں کے بیانات میں اتنا تضاد ہے کہ کس کے بیانیے کو درست سمجھا جائے اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم علیمہ خان چونکہ بہن ہیں اور ان کی اٹیچمنٹ بھائی سے زیادہ ہے تو اگر عمران خان کی صحت خراب ہوتی یا ان کی حالت ایسی ہوتی جیسی بشریٰ بی بی نے بیان کی تھی تو بہن علیمہ خان سب سے پہلے اس پر بات کرتیں۔ لیکن علیمہ خان کے مطابق عمران خان کی صحت اور حالت بالکل ٹھیک ہے اور وہ بتا رہی ہیں کہ عمران خان خوش اور مطمئن ہیں۔
دونوں کے بیانات میں پائے جانے والے تضاد سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں میں اب بھی شدید اختلاف موجود ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ عمران خان کی بہنیں ان کی بشریٰ بی بی کے ساتھ شادی پر راضی نہیں تھیں۔ بہنوں کا کہنا تھا کہ یہ شادی نہیں ہونی چاہئیے جس کے بعد بشریٰ بی بی اور عمران خان دونوں نے بہنوں سے دوری اختیار کر لی۔ ان کی شادی میں بہنیں اور ان کے اہلخانہ موجود نہیں تھے۔ صرف پارٹی میں شامل ہونے والے کچھ نئے لوگ شادی میں شامل ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ جب عمران خان نے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لیا تب بھی ان کی بہنیں، بہنوں کے خاندان کے لوگ اور پرانے دوست احباب میں سے کوئی بھی شریک نہیں تھا۔
علاوہ ازیں جتنا عرصہ عمران خان وزیر اعظم رہے ان کی بہنوں کے لیے وزیر اعظم ہاؤس کے دروازے بند رہے اور وہ وزیر اعظم ہاؤس نہیں آئیں۔ وزارت عظمیٰ سے نکالے جانے کے بعد ان پر وزیر آباد میں حملہ ہوا تب بہنیں عمران خان سے ملنے اسپتال میں آئیں مگر زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ پر پھر بھی نہیں گئیں۔ ایسے وقت میں بھی کسی نے بشریٰ بی بی اور عمران خان کی بہنوں کو ایک ساتھ نہیں دیکھا کیونکہ وہ ایک دوسرے سے دور دور رہتی ہیں۔
عمران خان کی گرفتاری ہوئی تو 9 اور 10 مئی کے واقعات کے دوران عمران خان کی دونوں بہنوں کو کورکمانڈر ہاؤس کے آس پاس دیکھا گیا۔ ان کی شناخت بھی ہو چکی تھی اور دونوں بہنوں کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوا تھا تاہم پی ڈی ایم حکومت نے فیصلہ کیا کہ عمران خان سے جتنے بھی اختلافات ہوں لیکن اس میں ان کی بہنوں کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ان کی بہنوں کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ اس وقت کے وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ، نواز شریف اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے فیصلہ کیا تھا کہ خواتین کو سیاست سے دور رکھنا ہے۔ لہٰذا اس دوران بشریٰ بی بی کو گرفتار کیا گیا اور نا ہی عمران خان کی بہنوں کو۔ بڑے اور اہم مقدموں کے باوجود ان کو صرف انکوائری تک محدود رکھا گیا۔ یہ 'پولیٹیکل نارمز' کی بہت بڑی مثال تھی جو پی ڈی ایم حکومت نے قائم کی۔