Get Alerts

بنگلہ دیش کی تخلیق

بنگلہ دیش کی تخلیق

(ندیم فاروق پراچہ)


جولائی 1971 ء میں جب پاکستانی کرکٹ ٹیم نے انگلستان کا دورہ کیا تو بنگالی قوم پرستوں اور پاک فوج کے درمیان خانہ جنگی کی فضا گہری ہو چکی تھی۔ سمندری طوفان کی وجہ سے یہ خطہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا بھی شکار تھا۔ انگلش کرکٹ بورڈ نے مشرقی پاکستان کے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے ایک کرکٹ بیٹ نیلام کرنے کامنصوبہ بنایا۔ اس بیٹ پر پاکستانی اور انگلش کھلاڑیوں کے دستخط ہونے تھے۔ تاہم کچھ پاکستانی کھلاڑیوں نے دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ ان کھلاڑیوں میں سب سے نمایاں پاکستان کے جارحانہ انداز میں کھیلنے والے اوپننگ بلے باز، آفتاب گل تھے ۔ اُن کا موقف تھا کہ یہ رقم آخر کار قوم پرست بنگالی انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے اُ س وقت کے کپتان، انتخاب عالم نے ناراض کھلاڑیوں، جو آفتاب گل کے ہم خیال تھے، کومشورہ دیا کہ وہ کرکٹ کو سیاست سے الگ رکھیں اور بیٹ پر دستخط کردیں۔ اُن کے انکار نے برطانوی اور پاکستانی حکومت کے درمیان ایک شرمناک سفارتی تنازع کھڑا کردیا، یہاں تک کہ صدرِ پاکستان، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، جنرل یحییٰ خان کو مداخلت کرنا پڑی۔ اُنھوں نے کھلاڑیوں کو بیٹ پر دستخط کرنے کا حکم دیا۔ گل نے اس پر بھی انکار کردیا۔ لیکن آخر کار وہ راضی ہوگئے، لیکن وہ دستخط کرنے والے آخری پاکستانی کھلاڑی تھے۔ گزرے ہوئے عشروں میں 1971 ء کا مشرقی پاکستان کا سانحہ، جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا او ردسمبر 1971ء میں بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا، انتہائی قطبی بحث ، یک طرفہ بیانیے اور قطعی موقف کے ساتھ پیش کیا جاتا رہا ہے ۔ اختیار کیے گئے دوطرفہ قطعی موقف کے درمیان موجود کچھ مبہم امور پر بمشکل ہی کبھی تحقیقات کی گئی ہیں۔ آفتاب گل کی مثال ظاہر کرتی ہے کہ یہ ایشو اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والا سانحہ کہیں زیادہ پیچیدہ تھے کیونکہ گل نہ تو اسٹبلشمنٹ کی طرف جھکاؤ رکھتے تھے اور نہ ہی دائیں بازو کے انتہا پسند گروہوں (البدر اور الشمس) کے حامی تھے ۔ ان گروہوں نے مشرقی پاکستان میں بنگالی قوم پرستوں کو کچلنے میں پاک فوج کا ہاتھ بٹایا تھا۔ درحقیقت آفتاب گل 1968 ء میں ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز کرنے سے پہلے مارکسی نظریات رکھنے والے ایک پرجوش طالب علم رہنما تھے ۔ وہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف چلنے والی طلبہ تحریک کے ہراول دستے میں شامل تھے ۔ پیٹر برون نے پاکستانی کرکٹ کی ہنگامہ خیز تاریخ پر اپنی شاندار کتاب، ’’زخم خوردہ شیر‘‘ میں لکھاہے کہ پنجاب یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے آفتاب گل ایک باصلاحیت بلے باز تھے۔ لیکن اُنہیں 1968 ء میں لاہور میں انگلینڈ کے خلاف ٹیم میں شامل کرنے کی وجہ کچھ اور تھی۔ سلیکٹرز کا خیال تھا کہ اس کی وجہ سے طلبہ میچ کے دوران احتجاجی مظاہرہ نہیں کریں گے ۔ لیکن اُن کی توقع غلط ثابت ہوئی۔وہ میچ ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک کے عروج کے دور میں ہوا تھا۔ گل ڈریسنگ روم میں بیٹھ کردیکھتے رہے جب بپھرے ہوئے طلبہ گراؤنڈ میں داخل ہوکر ایوب کے استعفے کا مطالبہ کررہے تھے ۔





آفتاب گل(بائیں طرف سے تیسرے نمبر پر)ایک اور پاکستانی کھلاڑی، طلعت علی کے ہمراہ 1971 ء کے دورۂ انگلستان کے دوران چند سکیورٹی اہل کاروں کے ساتھ بات کررہے ہیں( ذرائع: عافیہ سلام)


1969ء میں ایوب خان استعفیٰ دے کر اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کرنے پر مجبور ہوگئے ۔آفتاب گل ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی ) کے پرجوش حامی بن گئے ۔وہ پارٹی کے بائیں بازوسے تعلق رکھنے والے ابتدائی گروہ ، جیسا کہ شیخ احمد رشید، معراج محمد خان اور ڈاکٹر مبشر حسن کے ساتھ شناخت کیے جاتے ۔ چنانچہ جب منقسم رائے کا ایک دھڑا کہتا ہے کہ مشرقی پاکستان کی خانہ جنگی قدامت پسند ریاست اور اس کے دائیں بازو کے اتحادیوں کے درمیان تھی تو پھر آپ گل جیسے افراد کی مثال کی کیا وضاحت پیش کریں کرسکتے ہیں؟ سچی بات یہ ہے کہ گل کی کوئی نادر مثال نہیں۔ بنگالی قوم پرستوں کے خلاف فوجی ایکشن کی حمایت نہ صرف جماعت اسلامی جیسی قدامت پسند جماعت نے کی بلکہ چین نواز بائیں بازو کے دھڑے بھی اس کے حامی تھے ۔اُس وقت اشتراکی دنیا چین نواز اورسوویت نواز دھڑوں میں تقسیم تھی۔ پاکستان میں پی پی پی کی صفوں موجود چین نواز رہنما اور چین نواز (نام نہاد ماؤسٹ) طلبہ گروپ بنگالی قوم پرستوں کے خلاف کارروائی کی حامی تھے۔ سوویت نواز گروپ، جیسا کہ ولی خان اور غوث بخش بزنجو کی نیشنل عوامی پارٹی (این اے پی)مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کی مخالف تھی۔ چنانچہ یہ کوئی سیدھا سادا ’’دائیں بازو بمقابل بائیں بازو‘‘ والا معاملہ نہ تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر، سلیل ترپاتھی نے اپنی کتاب’’The Colonel Who Would Not Repent‘‘ میں ثابت کیا ہے کہ بنگالی قوم پرست بھی چین نواز اور سوویت نواز دھڑوں میں تقسیم تھے ۔ اور یہ بھی حقیقت تھی کہ پاک فوج کے بنگالی جوان، جنہوں نے بغاوت کرتے ہوئے قوم پرستوں کا ساتھ دیا تھا، بذاتِ خود بھارت مخالف تھے ۔اُن میں سے کچھ نے 1975 ء کے اُس لہومیں ڈوبے ہوئے شب خون میں حصہ لیا جس میں بنگلہ دیش کے بانی ( شیخ مجیب الرحمان) اور اُن کے زیادہ تر خاندان کو ختم کردیا ۔





بنگلہ دیش کے بھارت مخالف گروپ سے تعلق رکھنے والے فوجی افسران جنہوں نے 1975 ء کے شب خون میں مجیب کا تختہ الٹا(ذائع: ٹائمز)


 

دونوں قطبی بیانیوں کے درمیان کچھ ابہام موجود ہے جس کاکھوج مشہور بھارتی مورخ، شرمیلا بوسے نے اپنی کتاب ’’Dead Reckoning‘‘ میں لگایا ہے ۔یہ شاندار کتاب بنگلہ دیشی ریاست اوراس کی مختلف حکومتوں کے 1971 ء کے سانحے کے بیان کردہ واقعات کا ناقدانہ جائزہ لیتی ہے ۔ اس بیانیے کو غیر بنگالی لکھاریوں اور مبصرین نے بھی استعمال کیا ہے ۔ شرمیلا بوسے 1971 ء میں ڈھاکہ کے امریکی سفارت خانہ کی پیغام رسانی کا کھوج لگاتی ہیں ۔اس سے بھی اہم، وہ ا س خونی کشمکش کو بہت قریب سے دیکھنے والے ،اور اس کا حصہ بننے والے درجنوں افراد کا انٹرویو کرتی ہیں۔ جب وہ اس مواد کا بنگلہ دیش کے سرکاری بیانیے سے موازنہ کرتی ہیں تواس نتیجے پر پہنچتی ہیں کہ اُس وقت مخالفین پر تشدد کرنے، اُنہیں معذور کرنے اور قتل کرنے والی واحد پارٹی پاک فوج ہی نہیں تھی۔ قوم پرست بنگالی انتہا پسند ، جنہیں بھارت کی پشت پناہی حاصل تھی، بھی قتل و غارت میں برابر کے شریک تھے۔ اس خانہ جنگی میں ہزاروں آدمی، عورتیں اور بچے ہلاک ہوئے ، لیکن بنگالی انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے غیر بنگالی افراد کی تعداد بھی ہزاروں میں ہی تھی۔ شرمیلا بوسے کی کتاب پر بھارتی او ر بنگالی مورخین نے شدید تنقید کی۔ اُنھوں نے اس حقیقت کو نظر انداز کردیا کہ شرمیلا کی کتاب Dead Reckoning 1971 ء کی خانہ جنگی میں ہونے والی زیادتیوں کا الزام پاک فوج سے ہٹا کر بنگالی انتہا پسندوں پر نہیں لگاتی۔ ہاں، یہ کتاب اُن اوراق کو سامنے ضرور لاتی ہے جو اس خوفناک کشمکش پر ہونے والی بحثوں میں موجود نہیں ۔ یہ اوراق بنگالی قوم پرستوں کے ہاتھوں فوجیوں اور غیر بنگالی شہریوں کے خون سے داغدار تھے ۔ یہی چیز اس کشمکش کو انتہائی وحشیانہ بنا دیتی ہے ۔





بنگالی قوم پرست جنہوں نے 1971 ء میں مشرقی پاکستان میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران غیر بنگالیوں کے ایک گروہ کو ہلاک کیا۔( ذرائع : الجزیرہ)

قیامِ پاکستان کے ایک سال کے بعد ہی مشرقی پاکستان کا ایشو سامنے آنا شروع ہوگیا تھا۔ جب 1948 ء میں اردو کو واحد قومی زبان قرار دیا گیا تو ڈھاکہ میں فسادات پھوٹ پڑے ۔حقیقت یہ تھی بنگالی پاکستان کی اکثریت کی زبان تھی ۔ اگرچہ بہت سے مورخ اس واقعے کو کشمکش کا نقطۂ آغاز قرار دیتے ہیں لیکن وہ بعض وجوہ کی بنا پر اس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ پانچ سال بعد، 1954 ء میں ریاست اور حکومتِ پاکستان نے بنگالی کو بھی اردوکے مساوی قومی زبان کادرجہ دے دیا تھا۔ مشرقی پاکستان کے سانحے کا ایک اور گم شدہ ایشو یہ ہے کہ 1965 ء کی پاک بھارت جنگ تک مجیب الرحمن کی عوامی لیگ علیحدگی پسند جماعت نہیں تھی ۔ سندھی، بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کی طرح عوامی لیگ بھی وفاقِ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کررہی تھی ۔ لیکن 1965 ء کی جنگ ، جو فیصلہ ثابت نہ ہوئی، اور ایوب خان کی مقبول حکومت کے پرزے بکھرنے لگے تو مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کی حالتِ زار پر کھل کر ریاست پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانا شروع کردیا۔ مجیب نے دعویٰ کیا 1965 ء کی جنگ کے دوران پاک فوج نے مشرقی پاکستان کو ’’ غیر محفوظ اور بھارتی فورسز کے حملے کی زد میں ‘‘ چھوڑ دیا تھا۔ باوجود اس حقیقت کے کہ بھارتی فورسز کے حملے کا ارتکاز مغربی پاکستان پر تھا، مجیب کا بیانیہ مشرقی پاکستان میں مقبول ہوتاگیا۔ اس نے عوامی لیگ کو ایک بنگالی قوم پرست جماعت بنادیا۔ اس کے باوجود ،لارنس زرنگ، اپنی کتاب ’’From Mujib to Ershad‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب مجیب کو 1971 ء کی خانہ جنگی کے دوران گھرمیں نظر بند کیا گیا، تو بھی وہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ وفاقِ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے مشرقی پاکستان کی خودمختاری پر بات چیت کررہے تھے ۔ دسمبر 1971 ء میں دونوں بازو الگ ہوئے اور بھٹو پاکستان کے صدر کے منصب پر فائزہوگئے ، تو مجیب کو کچھ علم نہیں تھا کہ کیا ہوا ہے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نظربندی کے دوران اُن تک باہر کی خبریں نہیں پہنچ رہی تھیں۔ زرنگ لکھتے ہیں کہ جب مجیب قید سے رہا ہوئے تو یہ جان کر حیران رہ گئے کہ مشرقی پاکستان الگ ہوچکا ہے ۔ اس واقعہ کی واحد سچائی یہ ہے کہ یہ انتہائی ہولناک تھا۔ مشرقی پاکستان میں ہزاروں بنگالی، غیر بنگالی اور پاک فوج کے سپاہی ہلاک ہوئے ۔ ان عشروں کے دوران ہونے والی قطبی بحثیں اس سوال سے آگے نہیں بڑھ سکیں کہ اس خانہ جنگی میں پاک فوج کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کتنی تھی اور بنگالی انتہا پسندوں کے ہاتھوں پر کتنے غیر بنگالی افراد اور فوجیوں کا خون تھا۔ تاہم موجود ہ دور میں کچھ مورخین نے کھوج لگانا شروع کیا ہے کہ بنگالی قوم پرست بھی ہلاکتوں کے برابر کے ذمہ دار تھے ۔