کراچی سے ایک 'لاپتہ کشمیری' کی داستان

کراچی سے ایک 'لاپتہ کشمیری' کی داستان


(فواد حسن)


جب کبھی بلوچستان پر ہونے والے مظالم کی بات ہوتی ہے تو ریاستی اہلکاروں کی جانب سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ کیا آپ کو کشمیریوں پر ہونے والا ظلم نظر نہیں آتا۔ تو کیوں نہ آج واقعتاً بات کی جائے ایک کشمیری کی جس کے اہل و عیال پر بھی اس قدر ظلم ہوا ہے کہ اس کے معصوم بچے یہ جان گئے ہیں کہ بھوک کس کٹھن امتحان کا نام ہے۔


 


 

زاہد کشمیری کے آباؤ اجداد کا تعلق جموں کشمیر سے ہے جو کارگل کی جنگ کے بعد یہ سوچ کر پاکستان آ گئے تھے کہ اب شاید بھارت کے ظلم و ستم سے نجات مل جائے گی اور ان کی آنے والی نسلیں وہ سب کچھ نہ جھیلیں گی جسے انہوں نے زندگی بھر سہا۔ لیکن افسوس کہ جنت نظیر کشمیر کے اس فرزند کو پاکستان آ کر بھی سفاکی سے نجات نہ ملی اور یہاں بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے 16 دسمبر 2016 کی منحوس رات کو قریب تین بجے اپنے ساتھ لے گئے۔ اور اب تک زاہد کی اہلیہ اور کمسن بچے بس اپنے چھوٹے سے مکان کے دروازے پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔




 

زاہد کشمیری گولیمار کے ایک شیعہ علاقے کشمیری محلہ کا باسی ہے جہاں کوئی دس سے پندرہ خاندان بستے ہیں۔ یہ خاندان کشمیر سے ہجرت کر کے یہاں آ بسے تھے۔ پچاس سے ساٹھ گز کے ان کچے مکانوں میں رہنے والے یہ عام سے لوگ چین سے جینے کا حق حاصل کرنے کے لئے یہاں آئے تھے جہاں تعصب سے پاک زندگی گزاری جا سکے۔ لیکن تعصب جیسے ان کا پیچھا کرتے کشمیر سے یہاں تک چلا آیا ہو۔


اب اس محلہ میں ہر بزرگ و بچہ بس زاہد کو یاد کرتا ہے اور ہر روز ہر شام زاہد کی اہلیہ سے یہ سوال دہراتا ہے کہ کیا اب تک اس کی کوئی خبر نہیں۔ اور زاہد کی شریکِ غم منفی میں سر ہلا دیتی ہے۔


سنتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں جب کوئی آدمی غائب کر دیا جاتا ہے تو اس کی عورت آدھی بیوہ کہلائی جانے لگتی ہے۔ یہ اب معلوم ہوا کہ ان کشمیری عورتوں کی قسمت پاکستان کے کراچی آ کر بھی بدلتی نہیں ہے بلکہ یہاں بھی انہیں اس ابہام میں زندگی گزارنی پڑ رہی ہے کہ نجانے ان کا مرد زندہ بھی ہے کہ نہیں۔


زاہد کی اہلیہ کا کہنا یہ ہے کہ ان کے شوہر گھر چلانے کے لئے اور بچوں کی تعلیم کی خاطر تین نوکریاں کرتے تھے۔ دو علاقے کے سکولوں میں صبح و دوپہر کے اوقات معمولی کام سر انجام دیا کرتے تھے اور شام کے وقت سے رات گئے تک پلمبری کر کے زندگی کی گاڑی چلا رہے تھے۔ ان کے تین بچے ہیں جس میں سے سب سے بڑی بیٹی صرف ۹ سال کی ہے۔







 

لاپتہ ہوجانے سے چند ہفتے قبل زاہد اپنے خاندان کے ساتھ بیاہ کی ایک محفل میں شریک ہونے گئے تھے کہ واپس لوٹنے پر پتہ چلا کہ ان کے گھر پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے چھاپہ مارا ہے۔ گھر کی سب چیزیں الٹی سیدھی پڑی تھیں۔ محلے والوں، رشتے داروں سب نے اس حادثے کے بعد زاہد کو تلقین کی کہ یہ شہر چھوڑ کر چلے جاؤ یا کم از کم علاقہ ہی تبدیل کر لو۔ جس پر زاہد انہیں یہ جواب دیتا کہ میرا روزگار یہاں ہے، میرے بال بچے یہاں سکول میں زیرِ تعلیم ہیں، میں نے کوئی جرم نہیں کیا جو میں کہیں بھاگ جاؤں۔


ان کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ اگر زاہد نے کوئی جرم کیا ہوتا اور دل میں چور ہوتا تو وہ انہی دنوں فرار ہو جاتا۔ لیکن وہ بلا خوف و خطر اپنے گھر میں رہے یہاں تک کہ ایک دن قانون نافذ کرنے والے انہیں اپنے ہمراہ لے گئے اور تا حال ان کی کوئی اطلاع نہیں۔


ایک سال کے اس عرصے میں زاہد کی بیوی اور بچوں نے اکیلے بہت غم جھیلے، رزق و وسائل کی اس قدر کمی بھی دیکھی کے نوبت بچوں کا سکول چھڑوانے تک آن پہنچی۔ لیکن سرکار نے ان کی آواز سننی تھی نہ سنی۔ وہ کہتی ہے کہ کوئی ایسا رستہ نہیں چھوڑا جہاں سے کوئی امید نظر آتی ہو۔ اپنا زیور تک بیچ کر، مقروض ہو کر بھی زاہد کو واپس لانے کی بات کی۔ بچوں کو لے کر کئی دفعہ احتجاج میں پہنچیں۔ لیکن جیسے قدرت کو کچھ اور ہی منظور ہو۔


گولیمار کے اس غریب طبقے سے تعلق والے صرف زاہد اور ان کے گھر والے نہیں ہیں جو اس عجیب قیامتِ صغرا سے گزر رہے ہیں۔ بلکہ کئی ایسے شیعہ گھرانے اور بھی ہیں جو اپنے نوجوانوں کی واپسی کے منتظر ہیں۔


زاہد کی اہلیہ دعا کے لئے جب ہاتھ اٹھاتی ہیں تو اپنے اجداد کے لئے فاتحہ پڑھتے وقت یہ سوچتی ہیں کہ کیا انہوں نے پاکستان کے کراچی آنے کا فیصلہ صحیح کیا تھا؟ یہاں آکر بھی تو ظلم کی شکل کچھ زیادہ نہیں بدلی۔